پاکستان وعدے کی سرزمین تھا۔ اب بھی ہے اور یہ اپنے موجودہ حالات سے بہت بہتر کر سکتا ہے۔ آپ میں سے وہ جو اس بےچارے ملک کی تھوڑی بہت تاریخ پڑھنے کے شوقین ہیں، یا پڑھ رکھی ہے وہ جانتے ہیں کہ وطن کو کبھی نارمل ریاست کے طور پر رہنے اور بڑھنے دیا ہی نہیں گیا۔ اسکو اک Permacrisis میں مبتلا رکھا گیا اور لطف یہ ہے کہ اس کو ایسا رکھنے والوں کی اپنی اور اپنے بچوں کی زندگیاں Permanormal کی کیفیات میں رہتی ہیں۔
پاکستان کے اک بڑے صوبے کے بڑے سیاسی عہدیدار، جو آج کل مسلسل دین کی خدمت کر رہے ہیں، ان کی دوسری بیگم کال پر انہیں کہتی ہیں کہ آپ بہت پریشر میں ہیں تو کیوں نہ اس پریشر کو ریلیز کرنے کے لیے 11 لاکھ روپوں میں آپ کے لیے تین خواتین جن میں سے دو کے نام یاد رہ گئے، نیہا اور آمنہ کو بلا لوں۔ ہاں مگر آپ اگر نیہا پر ہی اصرار کریں گے تو وہ اکیلی پانچ لاکھ لے گی۔ بہت اچھی اور شوہر کے پیسوں کا خیال رکھنے والی بیگم ہیں جو 15 لاکھ کے خرچ کو 11 لاکھ میں کروا کے اپنے شوہر کو پورے چار لاکھ کا فائدہ دے رہی ہیں۔
عین اس وقت جب یہ چار لاکھ روپوں کی بچت ہو رہی ہے تو اس بڑے صوبے میں آقامحمدﷺ کے نام پر اک یونیورسٹی کی تعمیر کا بھی اعلان ہو چکا ہے۔
نیہا اپنے لیے، مولوی نوردین دوسروں کے لیے۔ سبحان اللہ۔
اگر اس دنیا کی مظلوم ترین مخلوقات کا سروے ہو تو مجھے اب 50 برس کی عمر میں پاکستانی نوجوان مظلومیت کے انڈیکس پر سب سے اوپر متمکن نظر آتا ہے۔ میرے محبی، رضوان سعید کے بقول، اس ملک کے لوگوں (اور نوجوانوں) کو معلوم ہی نہیں کہ یہ ریاست ان کے ساتھ کیا کر گئی ہے اور مزید کیا کیا کرتی چلی جا رہی ہے۔ پاکستانی نوجوانوں کی اکثریت ہر قسم کی خوشی سے محروم مخلوق ہے جس کے پاس، خنجراب سے لے کر تربت تک کُل ملا کر دو تفریحات ہیں: چکن کڑاہی کھانا اور اپنے خصیہ جات کمال مہارت سے کھجانا۔
سلامی جمورے میں خوشی سے محرومی کا اک بہت بڑا ہتھیار پاکیزہ شخصیت کا وہ تصور ہے جو اس تصور کو پیش اور لوگوں کے گلوں میں زبردستی ٹھونسنے والی مقدس و محفوظ لوگوں کی اکثریت خود اپنے آپ اور اپنے خاندانوں پر لاگو نہیں کرتی۔ اس پاکیزہ شخصیت کے اکثریتی نہیں، تمام کے تمام حوالہ جات پاپولر مذہب سے لیے جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ پانچ وقت کے نمازی اس ملک کے کسی کونے میں ہی دودھ خالص ملتا ہو۔ ویسے، خالص دودھ کے حوالے سے جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کے شیرخوار، عمران نیازی بہت خوش قسمت رہے کہ دودھ تو کیا، انہیں کالاباغ ڈیری فارمز کی کریم بھی فراہم رہی۔ اس کریم پر فالودہ یہ رہا کہ عمران نیازی صاحب بھی مذہب کا تڑکہ لگا لگا کر ریاست مدینہ بیچتے رہے۔
اپنے لیے فاعلہ ملک کی کریم، اور دوسروں کے لیے حاجی عبدالکریم۔ ماشاءاللہ۔
97 فیصد مسلم آبادی کے اس ملک میں اسلام اکثرالاوقات خطرے میں رہتا ہے اور مظلوم مسلم نوجوانوں کی اکثریت اپنے پیارے دین کو اس خطرے سے باہر نکالنے کے لیے پیہم تیار رہتی ہے۔ وطن عزیز میں اسلامی سال شروع ہوتا ہے تو نامی گرامی ملحدین کی تسبیحات سرخ ہو جاتی ہیں اور وہ اس بات پر مُصر ہوتے ہیں کہ خوشی نہیں، غم حسینؑ منایا جانا چاہیے۔ اسی وطن عزیز میں عیسوی سال شروع ہوتا ہے تو کسی زمانے میں جماعت اسلامی والے ڈنڈا مارچ کیا کرتے تھے یہ کہہ کر کہ نئے سال کی خوشی منانا غیر اسلامی اور حرام ہے۔
ھجری میں ماتم، عیسوی میں ڈنڈا۔ اے میرے مولا، یہ عجب ہے فنڈا!
اے مظلوم پاکستانی نوجوان، خوشی منانا سیکھو۔ جہاں سے، جیسے ملتی ہے، دوسروں کو کسی قسم کی کوئی تکلیف دئیے بغیر خوشی منانا سیکھو۔ اپنے لیے خوشی کے مواقع پیدا کرو۔ اگر تم مسجد میں جا کر خوشی محسوس کرتے ہو، تو جاؤ مگر اپنی خوشی کے Paradigms کو دوسروں کی خوشی پر مسلط مت کرو۔ دوسرا اگر سال کا آغاز کچھ پی پلا کر، ناچ جھوم کر اور دوستوں میں رہ کر غم غلط کرتے ہوئے کرنا چاہتا ہے تو اس کی خوشی کے Paradigm کا بھی احترام کرو۔ اور اگر وہ اس معاملہ پر تمھارے نزدیک جہنم میں جائے گا تو جانے دو۔ جہنم کے داروغوں کو بھی تھوڑا کام کرنے کا موقع ملتے رہنا چاہیے۔
چلتے چلتے عرض کرتا چلوں کہ جب جماعت اسلامی والے ہر سال کے اس دن ڈنڈا مارچ کیا کرتے تھے تو وہ 1990 کی دہائی کا آخر اور پھر مشرف دور کے ابتدائی برس تھے۔ مشرف نے 2002 میں ایم ایم اے کو خیبرپختونخواہ کی حکومت عطا کر دی تھی۔ جس مشرف کے دور میں ایم ایم اے اپنی طرز کی ریاست مدینہ خیبرپختونخواہ میں قائم کر رہی تھی، وہی مشرف بلیو لیبل وہسکی کا شوقین تھا۔ مشہور صحافی Declan Walsh اپنی کتاب Nine Lives of Pakistan میں مری بروری کے بخشے ہوئے مالک، مِینو بھنڈارہ کے حوالے سے یہ لکھ چکے ہیں اور اس کی تردید نہیں آئی۔
اسی طرح Robert Grenier، جو سی آئی اے کے اسلام آباد میں سٹیشن چیف تھے اور جنہیں عمران نیازی نے امریکہ میں پاکستان کے سرکاری پیسوں پر بطور لابسٹ ہائیر کیا، وہ اپنی کتاب 88 Days To Kandahar – A CIA Diary میں اسلام آباد میں پاکستان کے سب سے زیادہ طاقتور دفتر کے اعلیٰ ترین افسر کے حوالے سے وہسکی سے شغل فرمانے کا ذکر کر چکے ہیں۔ تردید اس کی بھی نہیں آئی۔
تو مظلوم پاکستانی نوجوان، بھلے چکن کڑاہی کھاؤ، اپنے اور دوسروں کے خصیے بھی کھجاؤ، مگر پیارے، تھوڑی خوشی بھی پاؤ۔
پس تحریر: میری یہ تحریر، محبی اویس اقبال کے بنیادی خیال کے تحت ہے جو انہوں نے “جواں دلوں کی چاہ میں، نیو ائیر کی راہ میں” کے نام سے اک دیومالائی خوبصورتی سے تحریر کیا۔ آپ ان کی اس تحریر کو اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔