میرے Home Office والے کمرے میں چیزیں بکھری پڑی رہتی ہیں۔ یہاں عموماً میں، خاموشی اور تنہائی ہنسی خوشی رہتے ہیں۔ پھرکسی ای میل نوٹیفیکیشن کی “ڈِنگ” کی آواز سے یہ سکوت ٹوٹ جاتا ہے۔ ہر چند گھنٹوں بعد مائیکروسوفٹ ٹیمز کی مخصوص رنگٹون بج اٹھتی ہے۔ اس کے بعد کوئی انٹیگریشن، کوئی پروسیس یا کوئی سیکیورٹی ڈسکشن اور پھر۔۔۔
دوبارہ سے خاموشی۔۔۔
مگر گرمیوں میں اور شاید ہر گرمیوں میں میری کرسی کے پیچھے والی دیوار کے متوازی کونے میں اس مقام پر دیوار کے عین پیچھےپرندوں کا مینا کا ایک جوڑا اپنی محبت کا عروج پانے اس جگہ اپنا گھونسلہ بناتا ہے۔ شروع شروع میں نحیف سی کھٹ پٹ ہوتی ہے۔بہت کم، ہلکی سی۔ ایسی کھٹ پٹ جو شاید عام حالات میں ہو تو آسیب کا گمان دے مگر یہ کھٹ پٹ کانوں کو بھلی معلوم ہوتی ہے۔غالباً زندگی، زندگی سے محبت اور محبت کی زندگی کا “شور” کبھی شور ہوتا ہی نہیں۔ شاید یہ موسیقی ہوتی ہے۔
پھر کچھ دن اور گزرتے ہیں۔ انڈوں کی شکل میں حیوانی جبلت کے تقاضوں کے نتائج پر صبر کا عمل گزرتا ہے اور اس کے بعد انڈوںمیں سے نئی زندگی جنم لیتی ہے۔ زندگی سے زندگی اور پھر مزید زندگی۔ زندگی محبت مانگتی ہے، اور محبت preprogrammed ہوتی ہے۔ آپ دوستی کر سکتے ہیں مگر محبت خودکار نامعلوم طریقے سے ہی ہوا کرتی ہے، جس کا تعلق پھر ہم دماغ کے اندر چلتیکیمیا گری سے جوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔
میرے کمرے میں کچھ دن بعد پھر مینا کے بچوں کی آوازیں آنا شروع ہوتی ہیں۔ ہر تین چار منٹ بعد، بار بار۔ ایک آواز آتی ہے “کھٹ”۔یہ آواز بتاتی ہے کہ ماں اپنی چونچ میں کھانا لیے گھر وارد ہوچکی ہے۔ بچے ماں کی آمد پر یہ “کھٹ” سنتے ہی زور دار “چیں چیںچیں چیں” شروع کر دیتے ہیں۔ ماں اپنی چونچ سے دانہ بچوں کی چونچ میں ڈال کر رزق کا وسیلہ بنتی ہے، اور چاہتے نہ چاہتے اپنیمحنت کو زندگی کی افزائش کی صورت وصول کرتے ان بچوں کے ساتھ محبت مضبوط کرتی رہتی ہے۔
اور میرا یہ کمرہ زندگی اور محبت کی اس دھن کے سحر میں بندھ جایا کرتا ہے۔ اس موسیقی سے، اس ساز سے، اس آواز سے۔۔۔میں، خاموشی اور تنہائی۔۔۔ ہم تینوں ہی ایک سرشاری کی کیفیت میں چلے جاتے ہیں۔
میرے شہر میں گرمی کا دورانیہ سردی کے ہاتھوں مغلوب رہتا ہے۔ یہ غلبہ مگر کم سے کم بھی اتنا مضبوط ضرور رہتا ہے کہ مینا کےیہ بچے تب تک بڑے ہوجائیں۔ اس کے بعد یہ بچے بڑے ہو کر اپنی زندگی گزارنے کسی اور کمرے کی دیوار کا رخ کرتے ہیں۔ سردی غالباًپیرنٹ جوڑے کو اس گھونسلے میں راس نہیں، لہذا یہ جوڑا بھی کسی اور گھونسلے کا رخ کرتا ہے۔ سردی گزر جاتی ہے اور دوبارہگرمی آجاتی ہے۔
اور میرے کمرے میں زندگی و محبت کی یہ مسحور کن دھن دوبارہ شروع ہوجاتی ہے، جو مجھے، خاموشی اور تنہائی۔۔۔ ہم تینوں کوپھر سے یکجا کر دیا کرتی ہے۔
زندگی اپنی رفتار سے چلتی ہی رہتی ہے۔