اسی لکھاری کی مزید تحاریر

پلاسٹک کی بوتل میں محفوظ بوسہ

جج صاحب کا انصاف تو پورے آرمینیا میں مشہور تھا ہی، مگر ان کی طبیعت کی ملائمت اور حلیم مزاجی بھی اک آفاقی سچائی...

جیدا بیکرز کے جادوئی کیک

قجو جٹ بگڑتے ملکی حالات پر بہت پریشان تھا۔ ملکی معیشت پگھل رہی تھی۔ سیاسی استحکام ناپید تھا۔ خزانہ خالی ہو رہا تھا اور...

کاغذ سے بنے پرندے

تارڑ صاحب پر تنقید احباب کا حق ہے، مگر وہ اردو ادب کے عظیم ناول نگار ہیں۔ حوالہ کل رات اک ڈاکیومنٹری دیکھتے ذہن...

اوئے، باجی ڈر گئی، باجی ڈر گئی

کھوچل میڈیا پر ابھی چند گھنٹے قبل جدید بلوچ دانش کے اک نمائندے لکھاری، جو ڈپریشن ڈائریا کے ماہر ہیں، کے غائب ہونے کی...

افسانچہ: مرد تیری ایسی تیسی

مونا خان پاکستان کی بہت بڑی فیمینسٹ تھی۔ اس کا خیال تھا کہ دنیا میں تمام مسائل کی بنیادی جڑ مرد ہیں اور یہ...

فوجی سیاست سے بیزاری محسوس کروانے کی اک شعوری کوشش

میری عمر 50 برس ہے اور مجھے اپنی زندگی میں فوجی سیاست کے تماشے دیکھتے ہوئے 45 برس بیت گئے ہیں جب 1977 میں جنرل ضیا نے میری زندگی کا پہلا مارشل لاء نافذ کیا اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کو عدالت کے ذریعہ قتل کروا دیا۔ ریاست کی وحدانیت پر اپنا یقین نہ ہلنے والا ہے تو چارلس ڈیگال سے ماخوذ اک فقرہ ذہن میں ہمیشہ رہتا ہے: ہر ملک میں اک فوج ہوتی ہے۔ بہتر ہے کہ وہ اپنے ہی ملک کی فوج ہو۔

سیاست و معیشت میں “عظیم فوجی ذہانت” کی خرابی کے باوجود، اپنے فرائض میں مگن لڑنے مرنے والے فوجی اپنے بچے ہی محسوس ہوتے ہیں۔ 24 دسمبر 2022 کو کاہان (بلوچستان) کے علاقے میں دھشتگردوں نے اک آئی ای ڈی کے دھماکے سے پاک فوج کے چھ اہلکار شہید کر ڈالے۔ ان میں سے تین چار کی شکلیں دیکھیں تو وہ اپنے بھتیجوں کی عمر کے حوالے سے بچے ہی محسوس ہوئے۔ مشکلات میں مسلسل جان کی بازی لگانے والے ایسے اہلکاروں سے کون اختلاف رکھ سکتا ہے؟

اسی سکے کے دوسرے رخ میں یہ کہنا ہے کہ افواج کا مقام اپنی جگہ، مگر مشکلات میں مسلسل جان کی بازی لگانے کے کام کے علاوہ دوسرے معاملات میں الجھے اہلکاروں سے کون اتفاق رکھ سکتا ہے بھلا؟

سنہ 2014 کے عمرانی دھرنے تماشے پر بہت پبلک لٹریچر آ چکا ہے۔ اور یہ سب جانتے ہیں کہ وہ تب کے ڈی جی آئی ایس آئی اور جنرل راحیل شریف کی دین تھا۔ جو آپ مگر نہیں جانتے وہ یہ ہے کہ اس لانگ مارچ نے پاکستانی معیشت کو 800 ارب روپوں کا نقصان دیا۔ کیسے؟

اس پر مطالعاتی رائے موجود ہے کہ ایسے شورش والے واقعات  تقریبا اگلی چھ سہ-ماہیوں (یعنی 18 ماہ) تک اس وقت کے موجود جی ڈی پی میں ایک فیصد کی کمی کرڈالتے ہیں۔

دو چار جنرلز کی مہربانی سے 800 ارب روپوں کے نقصان کا مطلب یہ رہا کہ اس برس، یہ پاکستان کے دفاعی بجٹ کا 50 فیصد تھا، اور یہی رقم یعنی 800 ارب روپے وفاقی حکومت کا ترقیاتی بجٹ تھا۔

عمران نیازی کو سیاست اور میڈیا کے بانس پر مسلسل چڑھا کر رکھنے کا نتیجہ، 2021 میں کیے جانے والے اک سیاسی مطالعے کے تحت کیا نکلا (ترجمہ): “شورش اک پرتشدد طریقے سے نارمل اور روزمرہ کی معاشی اور سماجی زندگی کو برا جھٹکا دیتی ہے جس سے بڑے پیمانے پر ڈس-آرڈر اور نقصان کا تخیل ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اس سے انسان تو متاثر ہوتے ہی ہیں، اس سے سرمایہ اور ترقیاتی پروگرام بھی برباد ہوتے ہیں۔ تجارت کا نقصان ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ (ریاست میں) سرمایہ کاری اور کاروباری غیریقینی صورتحال پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے مقامی اور غیرملکی سرمایہ کار یا تو عارضی طور پر اپنے پلان روک دیتے ہیں، یا مکمل طور پر منسوخ کر دیتے ہیں (اور اپنا سرمایہ کہیں اور منتقل کر دیتے ہیں)۔”

شورش پاکستان کے حق میں تب بھی نہیں تھی، اور اب بھی نہیں ہے۔ یہ عجب حب الوطنی ہے کہ وطن کو مسلسل تنی کمان بنا کر رکھا جائے؛ کیوں؟ اور ایسے میں آپ چاہتے ہیں کہ ادارہ جاتی کارپوریٹ انٹرسٹس بھی محفوظ رہیں، سعودی ارب ریفائنری لگائے اور چین سرمایہ بھی؟ سبحان اللہ۔۔۔ ان کو بھی کیا یوتھڑ سمجھا ہوا ہے؟

اب ذرا جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید اور پانچ چھ دیگر جنرلز کے محبوب، فاعلہ ملک ڈیریز کے واحد وارث اور مولانا طارق جمیل کی ریاست مدینہ کے امیرالمؤمنین کی حکومت کا روزنامچہ پڑھیے:

سنہ 1947 سے 2018 تک پاکستان کا کل قرضہ 30،000 ارب روپے تھا۔ جب یہ انقلابی حکومت گئی تو یہ قرضہ 52،000 ارب روپے تھا۔ یعنی 71 برس میں 30،000 اور اس کے مقابلے میں 44 ماہ میں تقریبا اتنی ہی رقم کا قرضہ لیا گیا۔

جب چیف جسٹس ثاقب نثار کے “صادق و امین” کی حکومت آئی تو بجلی کا سرکلر ڈیٹ 1،100 ارب روپے تھا۔ دنیا کے شفاف ترین انسان کی حکومت 44 ماہ میں اسے 2،500 ارب تک لے گئی۔

جب سیٹھ میڈیا کے اینکرز کے محبوب کی حکومت آئی تو پاکستان کے گیس سیکٹر کے گردشی قرضے 350 ارب روپے تھے۔ نیازی صاحب نے بہت محنت سے اسے 1،400 ارب روپوں تک پہنچایا۔

اسی طرح 2018 میں پاکستان سٹیٹ آئیل کا گردشی قرضہ 200 ارب روپے تھا، جو نیازی حکومت کے اختتام تک 650 ارب روپے تھا۔

جس دن پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہوئی، عین اس دن پاکستان کا تجارتی خسارہ 45 ارب ڈالر تھا اور پاکستان کے بجٹ خسارے کا تحمینہ 5،500 ارب روپوں تک لگایا گیا تھا۔

وہ جو حقیقی آزای کا کھوکھلا نعرہ لگاتے تھے، وہ قوم کو حقیقی غلامی کی دیوار میں چُنوا گئے۔

اس برس ہمیں 34 ارب ڈالر کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے اخراجات ہی پورے کر سکیں۔ عین اس وقت جب یہ تلوار ہم پر لٹک رہی تھی تو جنرل باجوہ پرویز الہی کے ہی بقول،انہیں عمران نیازی کا ساتھ دینے کے لیے اپریل میں راضی کر رہے تھے۔

سیاست و معیشت “واقعات” نہیں ہوتیں۔ یہ مسلسل پراسییسیز ہوتے ہیں۔ یہ اگر رکتے ہیں تو بہت کچھ ساتھ میں منفی کر دیتے ہیں۔ پاکستان اس وقت اک بھکاری ملک ہے۔ اس میں کسی کو کوئی شک ہے تو دنیا چھوڑ، اس خطے میں بھارت اور بنگلہ دیش کے ساتھ اپنی معاشی اوقات کا ہی مطالعہ کر لے جس کی اک بہت بنیادی تصویر اوپر پیش کی ہے۔ اس کے علاوہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف کی ویب سائیٹس سے سیاسی ادوار میں، امریکی ڈالرز کی سپلائی کے بغیر، پاکستانی معیشت کا جائزہ لے اور پھر اپنے فہم و شعور کے مطابق یہ فیصلہ کرے کہ فوج کی سیاسی مداخلتوں نے اس ملک کو دیا کیا ہے۔

اور جب ہم سخت سردی میں گیس کی لوڈشیڈنگ برداشت کر رہے ہیں اور بجلی کے بےتحاشا بِل ہماری کمر توڑ رہے ہیں اور آٹا دال گھی چینی ہماری استطاعت سے باہر ہو رہا ہے تو جنرل باجوہ، جنرل فیض، مولانا طارق جمیل اور عمران نیازی کے دوسرے سیاسی دیوتا عین اس وقت کیا کر رہے ہونگے؟ ان کے مسائل کیا ہونگے؟ وہ اگر ہم جیسے مسائل برداشت کرنے والوں کی فہرست میں شامل نہیں ہیں، تو ہم سب کو ان مسائل میں دھکا دینے کا حق انہیں کس نے دیا تھا؟

ہاں، آپ اگر پاشا تحریک انتشار کے کارکن اور سیٹھ میڈیا کے سدھائے جانور ہیں، تو آپ کو آج بھی ہرا ہی نظر آ رہا ہوگا۔ آپ کو بھلے ہرا ہی نظر آ رہا ہو، فاعلہ ملک ڈیریز کی کریم آپ کے مقدر میں پھر بھی نہیں!

(اوپری اعداد و شمار میں سے کچھ ڈاکٹر فرخ سلیم کے مختلف کالمز سے لیے گئے ہیں۔ لطف یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب، اپنی تمام تر تہذیب اور قابلیت کے باوجود بھی عمران نیازی کے، بھلے تھوڑی مدت کے لیے ہی سہی مگر پیروکار بن گئے تھے۔)

پچھلا آرٹیکل
اگلا آرٹیکل
مبشر اکرم
مبشر اکرم
مبشر اکرم ویہلا آدمی ہے۔ وہ جب ویہلا ہونے سے بھی زیادہ ویہلا ہوتا ہے تو یہاں کچھ لکھ دیتا ہے۔
پڑھتے رہا کرو یارو

دوستی بکس کے چند مشاہدات

دوستی بکس ابھی تک تقریبا 500 آرڈرز پراسیس کرچکا ہے۔ ان 500 آرڈرز میں سے تقریبا 350 مسائل کے ساتھ رہے، جبکہ تقریبا 100 پر کوآرڈینشن کے چیلنجر ہے۔...

کیوٹ سین تھا

کیوٹ سین تھا۔ میں ہوٹل سے چیک آؤٹ کر کے باہر نکلا تو سامنے دو شیورلیٹ راکٹ ماڈل چٹی سفید گاڑیاں کھڑی تھیں۔ اچھا گاڑی پر نظر پہلے گئی بعد...

جُوٹھ

حاجی اشرف نے بہت دل و جاں سے محکمہ حیوانیات کی خدمت کی تھی۔ وہ اک جونئیر رینک پر بھرتی ہو کر، گوجرانوالہ ڈویژن کے ایس ڈی او کے...

آئی ایس آئی اور سیاست

یادش بخیر، میں امریکی ایمبیسی میں سیاسی امور کے شعبہ میں کام کرتا تھا۔ دیہاتی طبعیت تو اب بھی ہے، مگر اس کی شدت بہت کم ہو چکی ہے۔ اب...

مہاتما کا دھانہ

مہاتما بودم نے اپنا بڑا دہانہ کھولا اور کہا کہ قوم کو قرضہ نہیں لینے دوں گا۔ جلسہ گاہ اور لالکرتی میں بیٹھے تماشائیوں نے مست ہو کر تالیاں...

آنے والی کتاب “پینچو بہتان” سے اقتباس

کتاب: “پینچو بہتان” مصنف(ہ): پتہ نہیں قیمت: 96 روپیہ سکہ رائج السخت انتساب: محبت کا پہاڑ سر کرنے والے ہر رنگ برنگی کے نام باب: محبت کا پہاڑ گوٹھ پسٹل امن و امان کا...
error: چوری مت کر۔ اپنا کانٹینٹ خود لکھ کمینے۔