فیس بک پر “مرشد” کہہ کر مخاطب کرنے کا رواج عام ہے۔ تھوک مطلب ہول سیل کے بھاؤ یہ لقب برتا جاتا ہے۔
اکثر تو یہ لگتا ہے کہ ایک غیر اعلانیہ ڈیل ہے کہ تو مجھے مرشد کہہ، میں بھی تجھے مرشد پکاروں گا۔ اخے من تیرا مرشد بگویم تو (بھی) میرا مرشد بگو ۔۔۔۔
کبھی یہ خیال بھی آتا ہے کہ پاکستان میں جتنے فیس بک یوزرز ہیں، مرشد ان سے تھوڑے زیادہ ہی ہوں گے۔
معلوم نہیں یہ رسم کہاں سے چلی. افکار علوی کی نظم سے یہ لفظ پاپولر ہوا یا پرانا رواج ہے۔ وہ لطیفہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا جس میں آمنے سامنے بیٹھے دو میراثی درمیان میں رکھے حقے کی نال (نڑی) یکے بعد دیگرے ایک دوجے کی طرف بڑھاتے ہوئے چِھک چوہدری، چِھک چوہدری کہتے پائے ہیں۔
اس رواج کا ماخذ جو بھی ہے، سچ کہوں بوریت بہت ہوتی ہے۔بھلا ہو اُم الیوتھیین اور بخاریوں کے لمڈے کا، ان کا مبینہ روحونی مکالمہ سامنے آنے کے بعد لوگ اب مرشد کہتے، کہلواتے ہوئے جھجک محسوس کرتے ہیں۔
بہت مجبور بھی ہوں تو ہونٹوں پر انگلی رکھ کر سرگوشی کے انداز میں کہتے ہیں، شششش ۔۔۔ سنتے ہو مرشد جی، کی خیال اے 😉 ۔۔۔۔ میں کیہا اج مچھی پکی اے!