رؤف کلاسرہ کے ساتھ کبھی سلام دعا تھی۔ وہ مگر میری بھی ملازمت کے دن تھے۔ ملازمت گئی، سلام دعا بھی گئی۔ اسلام آباد بس کچھ ایسا ہی ہے۔
انہوں نے پرسوں ٹویٹر پر اک سکرین شاٹ شئیر کیا جس کا مدعا یہ تھا کہ وہ جن کی بیویاں انپڑھ ہیں، انہیں گھر میں گرم روٹی مل جاتی ہے جبکہ پڑھی لکھی بیویوں کے شوہر تندور پر کھڑے روٹی لگوا رہے ہوتے ہیں۔ یہ بہت عام سی بات تھی، مگر فرقہ دیسی لبرلان (مماتی) نے اسے بھی جینڈر، عورتوں کے حقوق اور اس کے مقام کے حوالے سے بہت کامیابی سے اک پِٹ سیاپا بنا لیا۔ یہ پٹ سیاپا چند اک دوستیاں بھی کھا گیا۔ کیا معلوم میری دوستیاں بھی چلی گئی ہوں، سوشل میڈیا پر کیا پتا چلتا ہے۔ مگر مجھے اس کی قطعا کوئی پرواہ نہیں۔ کسی کو نہیں ہونی چاہیے۔
فرقہ دیسی لبرلان (مماتی) بہت دلچسپ شے بن چکے ہیں۔ ان کے کیمیا پر مشاہدہ پھر کبھی سہی، مگر اللہ کا شکر یہ ہے کہ شغل لگانے کو اک فرقہ اور مہیا ہو گیا۔ شغل لگتا رہے گا۔ ویسے ہر ملک میں ان کے اپنے دیسی لبرلان (مماتی) فرقے موجود ہیں۔
صاحبان، دنیا کا ہر لطیفہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کو لازمی سٹیریوٹائپ کر رہا ہوتا ہے۔ لطائف میں کردار ہوتے ہیں۔ شاید 90 فیصد سے زیادہ لطائف میں کردار انسانی ہیں، اور 10 فیصد لطائف جانوروں پر ہیں۔ آپ اگر دیسی لبرلان (مماتی) کے طریق پر ہوں گے تو زندگی میں بہت سارا ایویں کا لطف مِس کرتے چلے جائیں گے اور قنوطیت کا اک دائرہ آپ کے گرد کھنچتا چلا جائے گا جس کے اندر اکثریت وہی سما سکے گی جو آپ جیسے ہی ہونگے اور آپ کی ہر بات پر “بلے وئی بلے” کہتے پھریں گے۔
مثلا، سرداروں، پٹھانوں، پنجابیوں، بنگالیوں وغیرہ کے بےشمار لطیفے ہیں۔ مجھے تو سب سننے میں مزہ آتا ہے۔ عورتوں اور مردوں پر لطیفے ہیں۔ ان کا بھی اپنا لطف ہے۔ کینیڈینز نے امریکنز پر لطائف گھڑ رکھے ہیں اور امریکی بھی کم نہیں کرتے۔ برطانیہ والے فرانسیسیوں کے لتے لیتے ہیں اور فرانسیسی ان کے۔ روس والے باقی یورپ کا ٹھٹھہ اڑاتے ہیں اور یورپی، روس کو نہیں بخشتے۔ میرے سواتی دوستوں نے بونیریوں پر لطائف بنا رکھے ہیں اور بونیری، سواتیوں کو نہیں بخشتے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ، وغیرہ وغیرہ۔۔۔
یہ سلسلہ تہہ در تہہ گلی محلے اور ڈرائنگ رومز تک ساری دنیا میں موجود ہے اور یہ سب انسانی معاشرت کا اک بہت عام سا حصہ ہے جو نجانے کب سے اک روٹین میں چلا آ رہا ہے۔ یہ نہ تو کوئی ذہن سازی کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کے معاشرتی و معاشی مقام کو ڈیٹرمن کرتے ہیں۔ ان کی ایسی تشریح کسی قسم کی قبض کا ہی نتیجہ ہو سکتی ہے۔ اک آسان زندگی کی دین نہیں۔ رؤف کلاسرہ سے تعلق باقی نہیں، مگر ان کی کہی اک ایویں سی بات جیسی باتوں کو ایویں سی ہی بات کے طور پر لیا کیجیے۔ اور اگر لطیفے آپ کے نزدیک ذہن و معاشرت سازی کر سکتے ہیں، تو آپ بھی اک لطیفہ ہی ہیں۔
اور اگر نہیں تو چوہے اور ہاتھی کا بھی اک لطیفہ ہے اور شیر اور کھوتے کا بھی۔ آپ اگر اپنی طرز کے مماتی ہیں تو ان دونوں لطائف کا انجام میں آپ کی نذر کرتا ہوں۔ بالخصوص، شیر اور کھوتے والا: شیر بن شیر!
اہم ترین نوٹ: کھوتے والے لطیفے میں گدھا کہنے کا قطعا کوئی لطف نہیں۔ امید ہے کہ کھوتوں کے مماتی اس لطیفے کا برا محسوس نہیں کریں گے۔