میرے پیارے اللہ میاں،
اسلام علیکم۔ میں جانتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہونگے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ جانتے ہیں کہ ہم خیریت سے نہیں ہیں۔
آپ کو مخاطب کرتے ہوئے میں خوفزدہ ہوں۔ آپ سے نہیں۔ آپ سے خوف تو بس بچپن سے لے کر جوانی کے درمیان تک ہی آتا تھا۔ اس کے بعد آپ سے ڈرنا چھوڑ دیا ہے۔ اس لیے بھی کہ مجھے آپ کی ذات کے حوالہ جات سے امید رحمت کی ہی ہے۔ عدل و انصاف کی نہیں۔ میں آپ کا اک گناہگار بندہ ہوں (اور ایسا ہی رہوں گابھی)۔ یار دوست کبھی کبھار میرے خیالات پر مجھے چھیڑتے ہیں تو انہیں کہے دیتا ہوں کہ کچھ تو کالی پوٹلی میں ایسا لے کر جانا چاہیے آپ کے ہاں کہ آپ کو رحیم، غفور بننے کا موقع ملے۔ آپ کو خالق، مالک تو مانتے ہیں ہی۔ وہ میری ان باتوں پر ہنس دیتے ہیں۔ میں ان پر جوابی ہنس دیتا ہوں اور اس وقت کا انتظار کرنے لگ جاتا ہوں جب وہ یہی باتیں دوبارہ کہیں گے اور میرا جواب تب بھی یہی ہو گا۔
اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میں آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کیوں خوفزدہ ہوں۔ میں آپ کے بنائے ہوئے بندوں، بالعموم مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانی مسلمانوں سے خوفزدہ ہوں۔ یہ آپ کے محبوبؐ کے لائے ہوئے دین کے ماننے والے تو ہیں، کام تقریبا سارے اس دین کے بتائے ہوئے اصولوں کے خلاف ہی کرتے ہیں۔ وہ آپ کو ایک تو مانتے ہیں، آپ کی مگر ایک نہیں مانتے۔ ایسا کرتے ہوئے ان کا سب سے بڑا ہتھیار تشدد ہوتا ہے جو وہ اپنے تئیں آپ کے، آپ کے محبوبؐ اور پھر اس دین کی روایت میں موجود دیگر ہستیوں کے دفاع کرتے ہوئے استعمال کرتے ہیں۔
ان کے پاس زبانی اور جسمانی تشدد کی صلاحیت اور حوصلہ موجود ہے تو ان سے میں یہ سوال بھی نہیں کر سکتا کہ یار، اللہ، رسولؐ اور دوسری مقدس ہستیوں کے مقام اور دفاع کے لیے انہیں تم لوگوں کی گولی اور گالی کی بھلا کوئی ضرورت بھی ہو سکتی ہے؟ انہیں یہ بھی کہتا ہوں کہ اقرا کے پہلے حکم پر تھوڑا بہت عمل کرنے سے جو عقل مجھے آئی ہے اس میں تو تمھاری گولی اور گالی سے تو دین کے عکس پر سیاہی پھرتی ہے، اور تم مجھے ٹھیک کرنے سے پہلے خود کو ٹھیک کیوں نہیں کرتے؟
مگر پیارے اللہ میاں، وہ آپ کی کتاب میں سے اپنی مرضی کے حوالے اٹھا لاتے ہیں۔ ان حوالوں پر اپنی مرضی کی بلند آواز تشریحات بیان کرتے ہیں۔ انہی حوالہ جات میں سے لوگوں کے گلے کاٹتے ہیں۔ ان پر توہین مذہب اور توہین رسالتؐ کے جھوٹے الزام لگا کر تیری عطا کی ہوئی زندگیاں برباد کر دیتے ہیں۔ بم دھماکے کرتے ہیں۔ لوگوں اور معاشروں کو اسلامی خلافت کے نام پر اپنے زیرتسلط لانے کی پرتشدد خواہش رکھتے ہیں حالانکہ خلافت اک شرعی تصور ہی نہیں۔ یہ تو بس اک سیاسی خیال ہے جس کا ارتقاء ہو گیا ہے عین ویسے جیسے جمہوریت اور دیگر حکومتی نظام انسانوں کے ساتھ ساتھ بنتے اورمٹتے چلے آئے۔
مجھے آپ سے گلہ بھی کرنا آتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے مجھے انسانی فطرت کی نفی کرتی ہوئی تشریحات کی بھی کوئی سمجھ نہیں آ پاتی جس میں ہونے والے تمام واقعات کو آپ کی مرضی بتائی جاتی ہے۔ اور “زمین پر اک پتا بھی آپ کی مرضی کے بغیر نہیں ہلتا” جیسی باتیں بتائی جاتی ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ شاید ایسا ہی ہوتا ہو، میں مگر یہ بھی نہیں جانتا کہ شاید ایسا نہیں ہوتا ہو۔ اس لیے بھی کہ ساری انسانی تاریخ میں اک طویل فہرست ہے جس میں انسانوں پر ایسے ایسے ظلم ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں جو یقینا ان کی برداشت سے کہیں باہر تھے۔
آپ تو سب جانتے ہی ہیں مگر جلدی میں نور مقدم ذہن میں آتی ہے اور کل کا کابل بھی۔ چلیں نور مقدم کو بھی چھوڑ دیں کہ پکے پاکستانی مسلمان اس بےچاری کے موت کی جانب بڑھتے لمحات میں بھی شیطانی تلاش کرنے کے ماہر ہیں، کل کے کابل کا ہی بتا دیجیے؛ یہ کیا تھا، یہ کیا ہے، یہ کیوں ہے، یہ کب تک ہے؟
داڑھی یا داڑھی کے بغیر پرتشدد ذہن رکھنے والے جو بھی کہتے ہیں، کہتے رہیں، میں آپ کو خط لکھتا رہونگا۔- میری جوابدہی آپ کو ہے۔ مجھ سے جوابدہی کی خواہش رکھنے والے پاکستانی مسلمان مجھے پہلا پتھر مارتے وقت یہ ثابت کریں کہ وہ ماں کے پیٹ سے نکلتے وقت کے معصوم ہیں۔ اور اگر نہیں تو مشورہ کی بھی ضرورت نہیں۔
خدا حافظ میرے پیارے اللہ میاں۔ آپ “خدا حافظ” کہنے پر ناراض تو نہیں ہوئے ناں؟ اب جو جب کبھی دل کیا کرے گا، میں آپ کو خط لکھ لیا کروں گا۔ اگر یہ بھی میری کالی پوٹلی میں جاتا ہے تو جائے۔ جتنی بڑی کالی پوٹلی ہو گی، اتنا ہی تو لطف آئے گا آپ کی رحیمی کو۔
آپ کا مسلسل گناہگار بندہ،
مبشر اکرم
(کابل، افغانستان میں بم دھماکے اور بچیوں کے قتل پر لکھا گیا)