اسی لکھاری کی مزید تحاریر

پلاسٹک کی بوتل میں محفوظ بوسہ

جج صاحب کا انصاف تو پورے آرمینیا میں مشہور تھا ہی، مگر ان کی طبیعت کی ملائمت اور حلیم مزاجی بھی اک آفاقی سچائی...

جیدا بیکرز کے جادوئی کیک

قجو جٹ بگڑتے ملکی حالات پر بہت پریشان تھا۔ ملکی معیشت پگھل رہی تھی۔ سیاسی استحکام ناپید تھا۔ خزانہ خالی ہو رہا تھا اور...

کاغذ سے بنے پرندے

تارڑ صاحب پر تنقید احباب کا حق ہے، مگر وہ اردو ادب کے عظیم ناول نگار ہیں۔ حوالہ کل رات اک ڈاکیومنٹری دیکھتے ذہن...

اوئے، باجی ڈر گئی، باجی ڈر گئی

کھوچل میڈیا پر ابھی چند گھنٹے قبل جدید بلوچ دانش کے اک نمائندے لکھاری، جو ڈپریشن ڈائریا کے ماہر ہیں، کے غائب ہونے کی...

افسانچہ: مرد تیری ایسی تیسی

مونا خان پاکستان کی بہت بڑی فیمینسٹ تھی۔ اس کا خیال تھا کہ دنیا میں تمام مسائل کی بنیادی جڑ مرد ہیں اور یہ...

شغل کا شغل دیکھتا ہوں

زندگی کا حصہ ہے، میں مگر پچھلے تقریبا تین برسوں سے کاروباری چیلنجز کا سامنا کر رہا ہوں۔ مجھے اس حوالے سے تھوڑی فکر رہتی ہے، مگر اک بات کا جو معلوم ہے کہ جاری شدہ کوئی بھی صورتحال ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتی، بشرطیکہ اپنے فیلڈ میں انسان محنت کا عمل جاری رکھے۔ آج نہیں تو کل، پرسوں۔۔۔ کوئی نہ کوئی دروازہ کھلتا ہی ہے۔ اپنی مہارت کے کام کی چونکہ کمی ہے تو آج کل آفس آتے ہوئے ہفتے میں تین دن عموما دو تین کلومیٹر شارٹ اتر جاتا ہوں اور پھر واک کرتا ہوا دفتر پہنچتا ہوں۔ عین یہی روٹین ہفتے کے تین دن، سوموار، بدھ اور جمعہ کے دن شام کی بھی ہے۔ شام 5 کے آس پاس دفتر سے نکل جاتا ہوں، دو تین کلومیٹر اربن واک اور پھر کریم سے گھر۔

آج صبح کی واک میں دل و خیال میں رنگ تھوڑا سلیٹی تھا۔ بنیادی وجہ اک خیال بنی جو کہیں سے کنپٹی میں آن لگا۔ خیال ایسے ہی کرتے ہیں۔ یہ بس ٹھاہ کر کے آ لگتے ہیں۔

اپنی ذاتی حیثیت میں خیال یہ آیا کہ اپنی زندگی میں نجانے کیسے کیسے مراحل، حوادث، واقعات، دھوکوں، مجبوریوں، ذلتوں اور معاملات سے گزرا ہوں۔ یہ سب سوچتے ہوئے تھوڑا فخر بھی محسوس ہوا کہ ان تمام کی اک طویل داستان زندگی میں موجود ہے۔ اب گو کہ چند اک عمدہ لوگوں کی زندگی میں موجودگی ہے تو دباؤ کی کیفیت ہونے کے باوجود، شب و روز اپنی روٹین میں گزرتے ہی چلے جاتے ہیں۔

مثلاً، آج خیال آیا کہ 22 برس کی عمر میں، میں جی نائن ٹو، کراچی کمپنی کے اک فلیٹ کے کمرے میں رہتا تھا۔ مہینے کے آخری دن تھے۔ پیٹ شدید خراب ہو گیا۔ مرتے مرتے بچا۔ ان سات دنوں میں، میں بالکل اکیلا تھا۔ غریب گھر کے بچے کا کون دوست ہو سکتا تھا؟ پھر ایسی صورتحال میں کہ اپنی بیماری سے دو تین دن قبل سڑک پر گرے اک نامعلوم نوجوان کی مدد کی جو پشتون تھا اور اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانے میں شاید 150 روپے خرچ ہو گئے۔ اپنی جان پر بنی تو عین یہی رقم موجود نہ تھی۔ وہ وقت بھی مگر گزر گیا۔ یاد گو کہ ذہن میں کہیں ویلڈ ہو گئی تو آج سویرے سر اٹھا گئی۔

زندگی کا سفر نجانے کیسے کیسے رستوں پر مزید لے جائے گا۔ ابھی کون سا میں مر گیا ہوں۔ پکے مسلمان تو کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی جھینگا لالا ہُر ہُر جاری رہے گی۔ کیا ضرورت ہے؟ اس زندگی کی دلدر کیا کوئی کم ہیں کہ انسان مرنے کے بعد بھی ان ٹُمکیریوں میں الجھا رہے بھلا؟

اس سارے سفر میں اپنی کُل کمائی چند لوگ ہی رہے جن کی وجہ سے زندگی میں رنگ، رونق اور اپنے شب و روز کے ساتھ محبت و محنت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ بہت سے دوراہے گزر گئے، بہت سے ابھی آئیں گے۔ جو گزر گئے، ان سے بھی نمبٹ لیا، جو آئیں گے، ان کی بھی ویکھی جائے گی۔ روز بروز چمڑی اگر موٹی نہ بھی ہو رہی ہو تو بھی زندگی کے معاملات میں انہیں دیکھنے اور جھیلنے کے حوالے سے لانگ ٹرم اپروچ کا سٹیمنا بڑھا ہی ہے۔ زندگی اور اس کے معاملات، چند اک لوگوں اور چند اک معاملات کو چھوڑ کر، بھرپور اور مکمل شغل ہی تو محسوس ہوتے ہیں۔

اوپر والے کو بہرحال خبر ہو، کہ اس کے بنائے ہوئے شغل کا شغل دیکھتا ہوں۔

پچھلا آرٹیکل
اگلا آرٹیکل
مبشر اکرم
مبشر اکرم
مبشر اکرم ویہلا آدمی ہے۔ وہ جب ویہلا ہونے سے بھی زیادہ ویہلا ہوتا ہے تو یہاں کچھ لکھ دیتا ہے۔
پڑھتے رہا کرو یارو

انقلاب مکمل ہو چکا تھا

محمود قریشی نے مہاتما عمران پیازی کے سامنے دو نام بہت ادب سے پیش کیا اور کہا کہ میرے بیٹے کو پنجاب اسمبلی اور بیٹی کو قومی اسمبلی کا...

چوہدری نیلسن منڈیلا پر مضمون لکھیں

چوہدری نیلسن منڈیلا پر مضمون لکھیں کل نمبر 69 نفلی سوال الجواب مورخہ ۶ جولائی ۱۹۶۹ کو کائنات کے پہرے پر مامور فرشتوں نے زمین سے آسماں کی جانب جاتے شیطان کو...

جٹ لیبارٹری کی ویزلین

ملک کے مشہور صحافی عجیب چکرم کو انٹرویو دیتے ہوئے مولانا فارغ جمیل اور جنرل او جا چاچا کی تخلیق کردہ ریاست مدینہ (جدید) کے امیرالمؤمنین نے ہمدردی اور...

ڈھینچوں ڈھینچوں ہچ ہچ

وہ زار و قطار رو رہا تھا۔ اس کا دل بہت کمزور تھا۔ اتنا کمزور کہ ذرا سی بات پر آنسو نکل آتے تھے۔ پھر طوعاً او کرہاً اسے...

پھر اللہ مالک تھا

شہر میں بڑے بابا کا عرس بس اک دن دور تھا۔ خلقت تمام پاکستان سے شہر میں ٹوٹی پڑ رہی تھی۔ ہر طرف ہجوم تھا اور بھانت بھانت کے...

دل تو بچہ ہے جی

حیات کی چالیسویں خزاں ابھی دیکھنی ہے۔ ہاں داڑھی کے چند بال سفید ہو چکے ہیں مگر سر کا ہر بال سیاہ ہے۔ یہی حال بدن کے جغرافیے پر...
error: چوری مت کر۔ اپنا کانٹینٹ خود لکھ کمینے۔