زندگی کا حصہ ہے، میں مگر پچھلے تقریبا تین برسوں سے کاروباری چیلنجز کا سامنا کر رہا ہوں۔ مجھے اس حوالے سے تھوڑی فکر رہتی ہے، مگر اک بات کا جو معلوم ہے کہ جاری شدہ کوئی بھی صورتحال ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتی، بشرطیکہ اپنے فیلڈ میں انسان محنت کا عمل جاری رکھے۔ آج نہیں تو کل، پرسوں۔۔۔ کوئی نہ کوئی دروازہ کھلتا ہی ہے۔ اپنی مہارت کے کام کی چونکہ کمی ہے تو آج کل آفس آتے ہوئے ہفتے میں تین دن عموما دو تین کلومیٹر شارٹ اتر جاتا ہوں اور پھر واک کرتا ہوا دفتر پہنچتا ہوں۔ عین یہی روٹین ہفتے کے تین دن، سوموار، بدھ اور جمعہ کے دن شام کی بھی ہے۔ شام 5 کے آس پاس دفتر سے نکل جاتا ہوں، دو تین کلومیٹر اربن واک اور پھر کریم سے گھر۔
آج صبح کی واک میں دل و خیال میں رنگ تھوڑا سلیٹی تھا۔ بنیادی وجہ اک خیال بنی جو کہیں سے کنپٹی میں آن لگا۔ خیال ایسے ہی کرتے ہیں۔ یہ بس ٹھاہ کر کے آ لگتے ہیں۔
اپنی ذاتی حیثیت میں خیال یہ آیا کہ اپنی زندگی میں نجانے کیسے کیسے مراحل، حوادث، واقعات، دھوکوں، مجبوریوں، ذلتوں اور معاملات سے گزرا ہوں۔ یہ سب سوچتے ہوئے تھوڑا فخر بھی محسوس ہوا کہ ان تمام کی اک طویل داستان زندگی میں موجود ہے۔ اب گو کہ چند اک عمدہ لوگوں کی زندگی میں موجودگی ہے تو دباؤ کی کیفیت ہونے کے باوجود، شب و روز اپنی روٹین میں گزرتے ہی چلے جاتے ہیں۔
مثلاً، آج خیال آیا کہ 22 برس کی عمر میں، میں جی نائن ٹو، کراچی کمپنی کے اک فلیٹ کے کمرے میں رہتا تھا۔ مہینے کے آخری دن تھے۔ پیٹ شدید خراب ہو گیا۔ مرتے مرتے بچا۔ ان سات دنوں میں، میں بالکل اکیلا تھا۔ غریب گھر کے بچے کا کون دوست ہو سکتا تھا؟ پھر ایسی صورتحال میں کہ اپنی بیماری سے دو تین دن قبل سڑک پر گرے اک نامعلوم نوجوان کی مدد کی جو پشتون تھا اور اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانے میں شاید 150 روپے خرچ ہو گئے۔ اپنی جان پر بنی تو عین یہی رقم موجود نہ تھی۔ وہ وقت بھی مگر گزر گیا۔ یاد گو کہ ذہن میں کہیں ویلڈ ہو گئی تو آج سویرے سر اٹھا گئی۔
زندگی کا سفر نجانے کیسے کیسے رستوں پر مزید لے جائے گا۔ ابھی کون سا میں مر گیا ہوں۔ پکے مسلمان تو کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی جھینگا لالا ہُر ہُر جاری رہے گی۔ کیا ضرورت ہے؟ اس زندگی کی دلدر کیا کوئی کم ہیں کہ انسان مرنے کے بعد بھی ان ٹُمکیریوں میں الجھا رہے بھلا؟
اس سارے سفر میں اپنی کُل کمائی چند لوگ ہی رہے جن کی وجہ سے زندگی میں رنگ، رونق اور اپنے شب و روز کے ساتھ محبت و محنت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ بہت سے دوراہے گزر گئے، بہت سے ابھی آئیں گے۔ جو گزر گئے، ان سے بھی نمبٹ لیا، جو آئیں گے، ان کی بھی ویکھی جائے گی۔ روز بروز چمڑی اگر موٹی نہ بھی ہو رہی ہو تو بھی زندگی کے معاملات میں انہیں دیکھنے اور جھیلنے کے حوالے سے لانگ ٹرم اپروچ کا سٹیمنا بڑھا ہی ہے۔ زندگی اور اس کے معاملات، چند اک لوگوں اور چند اک معاملات کو چھوڑ کر، بھرپور اور مکمل شغل ہی تو محسوس ہوتے ہیں۔
اوپر والے کو بہرحال خبر ہو، کہ اس کے بنائے ہوئے شغل کا شغل دیکھتا ہوں۔