محمود قریشی نے مہاتما عمران پیازی کے سامنے دو نام بہت ادب سے پیش کیا اور کہا کہ میرے بیٹے کو پنجاب اسمبلی اور بیٹی کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیجیے۔ مہاتما عمران پیازی نے محمود قریشی کی جانب دیکھا اور کہا کہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ تم تو جانتے ہو کہ میں موروثی سیاست کے کتنا خلاف ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے ٹکٹ کی درخواست پر دستخط کر دیے۔
اس کے بعد مہاتما عمران پیازی اپنے گھر کی کھڑکی میں آیا اور بلند آواز میں چیخنے لگا: میرے اور جنرل پاشا کے بھوٹانیو، میں موروثی سیاست کے سخت خلاف ہوں اور اسے جڑ سے اکھاڑنے آیا ہوں۔
اس کی یہ بات سن کر یوتھڑز بےاختیار ہو کر ناچنے لگ پڑے۔ چند اک جذباتی ہو گئے اور دھمالیں ڈالنے لگے، جب کہ دو تین نفیس یوتھڑز صرف کمر لچکا رہے تھے۔
جنرل پاشا کا انقلاب مکمل ہو چکا تھا اور اب وہ تسلی سے عربوں کی نوکری کر سکتا تھا