وینا ملک کہہ چکی ہیں کہ ان کا اکاؤنٹ کوئی اور چلاتا ہے۔ اک انسان ہونے کے ناطے کبھی سوچتا ہوں کہ ہر روز جب وہ صبح سو کر اٹھتی ہوں گی تو ان کی شکل تو وہی ہوتی ہو گی جو ہم سب کی ہوتی ہے۔ دانت برش کرتے خود اپنے مونہہ کی بو سونگھتی ہونگی اور آنکھوں میں سے گڈیں صاف کرتی ہوں گی اور ناک کی صفائی بھی۔ پھر وہی حوائج ضروریہ جو ہر کسی کے ساتھ جڑے ہیں۔ ترتیب اوپر نیچے ہو سکتی ہے۔
اپنا سفر بھی کبھی کبھار یاد آتا ہو گا کہ سنہ 2001 میں عثمان کے سٹوڈیو، ایف سکس ون کی گلی نمبر 33 سے اک غیرپارلیمانی معاملہ سے شروع کیا اور زندگی میں کہاں کہاں سے گزر گئیں اور اب بھی نجانے کہاں کہاں سے گزر رہی ہونگی۔ مجھے ان جیسے ہر کردار سے اک بنیادی انسانی ہمدردی محسوس ہوتی ہے۔
اک طویل عرصہ ہو چلا، دو خیالات راسخ نہ ہو سکے تو ان پر لکھ نہ سکا: (1) کتنا کافی، کافی ہوتا ہے، اور (2) چھوٹی پرائویٹ زندگی کے فوائد۔ اندازہ اور ذاتی پریکٹس ان دونوں کی بھرپور ہے اور اپنے پیارے احباب کو یہی لیکچر بازی بھی کرتا رہتا ہوں۔
اپنے رویہ میں عمومی ڈیسنسی کا کیا نقصان ہے؟ شہرت کی بھوک کیا اک فطری انسانی تقاضہ ہے؟ شور بہتر ہے یا آواز؟ کھوکھلے پن سے کیا بھرے پن کی خاموشی بہتر نہیں؟ بڑھ بڑھ کر اوپر اٹھنا، کیا لو-پروفائل زندگی سے بہت بہتر ہے؟
کیا ہماری انسانی حقیقتیں اک دوسرے سے مختلف ہیں؟ مجھے تو بالکل محسوس نہیں ہوتیں۔ اک عرصہ ہو گیا انسان کو ان غیرمرئی حوالوں سے انسان سمجھتے ہوئے جو اس کے آس پاس درجنوں اور سینکڑوں کی تعداد میں بُنے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس تخیل نے دوسرے انسانوں کو ان کی پوزیشنز کے حوالے سے دیکھنے سے کُلی آزادی عطا کر ڈالی۔
کیا ہم تمام کے تمام ہی بالآخر ٹریجک ہیرو/ہیروئینز نہیں؟ کیا ہم آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی حقیقت سے واقف نہیں ہوتے؟ کیا ہم اپنے آپ سے جھوٹ بول سکتے ہیں؟ کیا ہم تمام کے تمام ہی کہیں نہ کہیں خوفزدہ لوگ نہیں؟ ہماری صبح سویرے کی حقیقت، ہماری دوپہر اور شام کی حقیقت سے کیوں مختلف ہے؟ کیا دوپہر اور شام کی حقیقتیں، حقیقت ہیں بھی؟
ہا! سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا، جب لاد چلے گا بنجارہ۔