خالد اور آفتاب بہت خوش تھے۔ انہوں نے بطور پارٹنر 25 برس سے زیادہ اکٹھے محنت کی تھی اور بالآخر وہ اک بڑے پراپرٹی ڈیویلپر کے ساتھ پارٹنرشپ میں آ ہی گئے جس نے دنوں میں ان کو سترہ بڑے پراجیکٹس دے دیئے جو وہ بخوبی بیچ بھی رہے تھے۔ پیسہ تھا کہ بس آئے ہی جا رہا تھا
انہوں نے اپنے ٹاپ کے کلائینٹس کو خوش کرنے کے لیے اسلام آباد کے ایف ایٹ سیکٹر میں اک گھر خریدا اور اسے Party-pad بنا ڈالا۔ وہ اس گھر میں اپنے امیر ترین کلائینٹس کے لیے پاکستان کی مہنگی ترین لڑکیاں لاتے اور اسلام آباد کے اک مشہور Diplomatic Bootlegger، ملک محراب کے ذریعے عمدہ ترین شراب منگواتے۔ بڑے بیڈ روم کے ساتھ بغل میں نماز پڑھنے کی جگہ بھی تھی۔
تقریبا چھ ماہ بعد خالد پارٹی کر کر کے تھک گیا تو اس نے آفتاب سے کہا: یار افتے، کچھ زیادہ نہیں ہو گیا۔ آفتاب پوچھنے لگا کہ کیا تو خالد نے کہا: یار یہی کہ لڑکیاں، شراب، مسلسل پیسہ، لوگوں کی خوشامد اور خدمت۔ بہت تھکن ہو رہی ہے۔
بات سن کر آفتاب مسکرایا اور کہنے لگا: یار کیا پتہ کہ ہمیں مل ہی ان لڑکیوں، Bootlegger اور ان کلائینٹس کے مقدر کا رہا ہو۔ یہ بھی تو دیکھ ناں کہ ہمارے رزق کے ساتھ ان لڑکیوں اور ملک محراب کا کتنا رزق لگا ہوا ہے۔
خالد نے یہ بات سنی اور تھوڑی دیر خلا میں گھورتا رہا۔ پھر کہنے لگا: یار، بات تو تیری ٹھیک ہے۔ تو آج رات چوہدری رفیق کو بلاتے ہیں اور وہ ساتھ میں سمیرا کو بھی فون کردے کہ خود آئے اور ساتھ میں چار لڑکیاں اور لائے۔ ملک سے بھی کہہ کہ دس کریٹ وہسکی اور بیس کریٹ بئیر دے جائے۔ ہم تو کماتے ہی ہیں مگر لوگوں کا رزق نہیں رکنا چاہیے۔