میرے ننھیال والے شاندار لوگ تھے، اور ہیں۔ گکھڑمنڈی کے رہائشی۔ میری امی کے چار بھائی اور انہیں ملا کر کُل تین بہنیں تھیں۔ سب سے بڑے ماموں سلطان بٹ تھے اور اس کے بعد ماموں مسعود جو ماشاءاللہ حیات ہیں۔ پھر ماموں منظور اور پھر ماموں مقبول۔
ماموں سلطان گھر کے بڑے تھے تو شاید انہیں جلد ہی دال روٹی کے تفکر نے آن لیا تو وہ سعودی عرب چلے گئے۔ انہوں نے خوب پیسے کمائے۔ مجھے یاد ہے کہ وہ محبت کرنے والے بزرگ تھے اور میں نے زندگی کی پہلی ویڈیو گیم انہی کے لائے ہوئے کونسول پر کھیلی، زندگی کی پہلی فلم (کرانتی) انہی کے لائے وی سی آر پر دیکھی اور زندگی کی پہلی ائیرکنڈیشنڈ رات، انہی کے بنائے ہوئے نئے گھر کے اک کمرے میں باقی کزنز کے ساتھ کمبل میں ٹھٹھرتے گزاری۔ آٹھویں جماعت میں تھوڑے اچھے نمبر آئے تو انہوں نے مجھے سِلور ٹِپڈ شیفر کا پین بھی تحفے میں دیا تھا۔
ماموں مسعود 1948 میں کشمیر کے لیے جا کر لڑے بھی تھے۔ ہم اپنے بچپن میں ان کے ہاں عموما آئس کریم کی فرمائش لے کر جاتے تھے تو جس کے جواب میں “پاء متی” (مطیع الرحمن) کی دکان سے “پولکا کے ڈنڈے” آ جاتے تھے۔
ماموں منظور کاروباری ذہن کے، اور نفیس انسان تھے۔ دریوں کے کام میں تھے اور سیروسیاحت کے شوقین بھی۔ کاروباری ذہن ہونے کی وجہ سے وہ عموما سنجیدہ رہتے، مگر اپنے باقی بھائیوں کی طرح بالخصوص اپنی بہنوں اور انکے بچوں کے لیے نرم دل تھے۔
ماموں مقبول بھی کیا ہی شاندار آدمی تھے۔ پڑھنے لکھنے والے، اور سیاست میں سرگرم۔ وہ بہت اصولی شخص تھے۔ گکھڑمنڈی کے دو مرتبہ چئیرمین منتخب ہوئے۔ میں بہت چھوٹا تھا تو ان کی الیکشن کیمپئنز میں “سریش کی لیوی” کے ساتھ ان کے پوسٹر لگایا کرتا تھا۔ ماموں اکثر میرے ابو کو امپورٹڈ سگریٹس اور کتابیں دیا کرتے تھے۔ ان کے بیٹے، عرفان مقبول بٹ، اپنے ابو کے مزاج کے قریب تر ہیں۔ تینوں بہنیں، محبوبہ، جمیلہ اور نسیم (میری امی) اور تین بھائی اب اوپر جنتوں میں اکٹھے ہیں۔
ہوا یہ کہ ماموں منظور نے کوئی 40 برس قبل اپنے گھر کے سامنے اک بڑا باغیچہ لگایا جو بعد از میونسپل کمیٹی کے اس لیے گرایا کہ انہیں ان نواحی گاؤں، گڑھے، کے لیے سڑک نکالنا تھی۔ باغ کے گرنے پر میں نے ماموں کو مغموم دیکھا ہوا ہے۔ ان کے باغ میں اک درخت تھا جس سے شام کے وقت بہت بھینی خوشبو آتی تھی۔ میں کئی کئی طویل منٹ وہاں جا کر بس کھڑا رہتا تھا۔
پچھلے برس، اسلام آباد کی اپنی معیاری آوارہ گردی میں، میں ایف-ایٹ کی اک گلی سے گزر رہا تھا کہ مجھے وہی خوشبو آئی اور میں گویا ایک ہی چھلانگ میں چھ سات برس کی عمر میں جا پہنچا۔ میں نے وہی درخت دیکھا۔ بڑے سے گھر کا گیٹ کھٹکھٹایا تو جا صاحب باہر آئے، ان سے اس درخت کا نام پوچھا۔ انہیں معلوم نہ تھا۔ وہ گھر کے اندر گئے اور پھر اک بزرگ خاتونِ خانہ باہر آئیں تو انہوں نے شفقت سے درخت کا نام “چمپا” بتایا۔ دو دن بعد میں لوکل نرسری گیا اور جا کر چمپا کا اک بڑھتا ہوا پودا لے آیا، جسے لگانے کے کوئی ایک ہفتے بعد سامنے والے ہمسائیوں کے بدتمیز بچوں نے توڑ دیا۔
مجھ میں ہمت نہ ہوئی کہ پودا پھینک دوں۔ ٹوٹی ہوئی شاخ کو کیاری میں ہی لگا دیا تو اب وہ ایک کی بجائے دو پودے بن کر بڑھ رہا ہے۔
انتظار مشکل ہے کہ وہ کب بڑا ہو اور اس پر کب ہلکے پیلے رنگ کے مرکز والے سفید پھول آئیں اور میں تقریبا ہر روز ہی چھ سات برس کا بچہ بن جایا کروں۔