شاید سینیٹ کے الیکشن کے ہنگام، جب میر حاصل بزنجو جیسے دھرتی کے بیٹے کو الیکشن اس لیے ہارنا پڑا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے سینیٹرز کی ہیراپھیری کے علاوہ، سیکیورٹی اداروں کے ملوث ہونے کا معاملہ تھا۔ مؤخرالذکر کی جانب بزنجو مرحوم نے ٹی وی پر بات کرتے ہوئے کھلا اشارہ بھی کیا جس پر ساتھ چلتے ہوئے پیپلز پارٹی کی شیری رحمٰن نے دبے الفاظ میں خاموش رہنے کی تلقین نما درخواست کی۔ تب تک پاکستان میں طاقت کے ننگے ناچ کو دیکھتے ہوئے شعوری عمر کے 33 برس بیت چکے تھے۔
کل عدم اعتماد کے سرکس کو اپنی شعوری عمر کے 35ویں برس میں دیکھا تو خود پر لعن کرتے ہوئے خود کو ہی اپنا اک وعدہ یاد دلایا جس کی خلاف ورذی میں پچھلے تین دنوں سے کر رہا تھا: وطن سے امید لگا اور محبت محسوس کر کے کہ کاش یہ اک منظم ریاست کے طور پر منظم طریقے سے چلے۔
سینیٹ کے الیکشن اور اس سے ذرا پہلے ہی خود کو سمجھا لیا تھا کہ یہ وطن بنیادی طور پر تماشہ گاہ ہے اور اس میں تماشے ہی ہوتے رہے ہیں اور تماشے ہی ہوتے رہیں گے تو اک اکائی جو خود اپنے ساتھ ہی سنجیدہ نہیں، اس کے ساتھ انفرادی سنجیدگی لگا لینا شدید حماقت اور بےوقوفی ہے۔ تو لہذا، وطن کے معاملات کے ساتھ شغل کا تعلق اپنایا اور اس پر کبھی پچھتاوا برداشت نہ کیا۔
عدم اعتماد سے دو دن قبل، بہت زور کی حب الوطنی “آئی” جو دو مضامین کی صورت میں پے در پے نکال ڈالی۔
خادم کمیونیکیشن اور سیلف-کمیونیکیشن کی الف بے تھوڑی سمجھتا ہے تو سیلف-میسیجنگ کے کیمیا کی حقیقت سے بھی آگاہ ہے۔
جلدی میں بتائے دیتا ہوں کہ آپ جو کہتے، لکھتے اور بولتے ہیں، وہ آپ کی سوچ پر اثر انداز ہوتا ہے اور آپ کی سوچ، آپ کے مزاج پر اور آپ کا مزاج، آپ کے روزمرہ کے امور پر۔ آپ کا وہ تخیل جو کسی طرح کوئی فزیکل شکل نہ لے پائے، اسے دوسرا خیال یا کوئی اور معاملہ ری-پلیس کر ڈالتا ہے اور آپ اپنے تخیل کو عمل میں ڈھالنے کے بعد کے اثر سے بچ جاتے ہیں۔ آپ مگر اپنے خیال کو عمل میں ڈھالتے ہیں تو اس کے نتائج، اچھے یا برے، سہنے پڑتے ہیں۔ یہ نثر اگر تھوڑی مشکل محسوس ہوتی ہو تو اک بار پھر پڑھ لیجیے۔ خادم ویسے اپنے محترم دوستوں کے ساتھ اس پر گفتگو کو بھی تیار ہے۔
والٰہی، کہ بہت دلی رنج ہوا۔ عدم اعتماد کے تماشے پر نہیں، خود پر کہ اک وعدہ جو خود سے کیا تھا، توڑ ڈالا اور اس کے نتیجے میں پاکستان، اس کے سیکیورٹی اور آئنیی اداروں سے کچھ امیدیں وابستہ کر لیں۔ جس کا منطقی انجام کل دیکھا تو خود پر مزید افسوس ہوا۔
وطن کی چوٹی پر بیٹھے، اس ریاست سے تقریبا 17 ارب ڈالر کی سالانہ اشرافیائی رعائتیں حاصل کرنے والوں کا اگر وطن کے ساتھ قانون کے حوالے سے یہ مزاج ہے، تو بھائی جانوں، آپ کو، یا کم از کم مجھے، کون سے جانور نے کاٹ رکھا ہے کہ حکمران اشرافیہ کے مزاج کے برعکس، بھلے اک کوالیٹیٹِو خیال میں ہی سہی، قانون پسندی اور امید کے مزاج کو اپنائیں؟ جب کہ یہ وطن آپ کو 17 ارب ڈالر کی سالانہ رعائتیں بھی نہیں دیتا، بلکہ الٹا آپ کی کمر پر درے برسا کر آپ سے زندہ باد و پائندہ باد کے نعرے بھی لگواتا ہے۔
خادم سوشل میڈیا کی بےکاریت اور ڈوپامین کے تڑکے کے معاملات کا پرانا طالبعلم ہے۔ اس کا شکار شاذ ہی بنتا ہے۔ لکھ اور کہے اس لیے دیتا ہوں کہ اپنے جیسے غربت اور کوشش والے پس منظر کے لوگوں کا ڈھیر ہے۔ کیا معلوم ایک آدھ بہہ جانے سے بچ جائے۔ میں تو اپنا پس منظر بدل چکا، وہ جو بہنے سے نہیں رکیں گے، وہ نہیں بدل پائیں گے۔ تو اس لیے، میں تو خود کو معاف کرتا ہوں، آپ میں سے ڈیڑھ دو جو متفق ہیں، وہ بھی خود کو معاف کریں۔
بس تماشہ دیکھیں۔
پس تحریر: سیاست ٹھنڈے پیٹ کا کھیل ہے۔ ابھی بہت کچھ پردہ سکرین پر نمودار ہونا ہے۔ کل جو ہوا، وہ حتمی نہ تھا۔ حتمی کیا ہو گا، اس کا اندازہ ہے۔ بس اب پرانے مزاج کے مطابق پرواہ نہیں۔ یہ آخری نوٹ بھی خود کو تنبیہہ کے طور پر ہی لکھا ہے۔