پرانی بات ہے۔ ریاست پاکستان کے مالی معاملات کے اک افسر دوست تھے۔ اسلامی بینکنگ ان دنوں شروع ہو رہی تھی اور (شاید) میزان والے اک اشتہار چلاتے تھے جس میں اصلی بینکنگ کو Hellfire Banking کہا گیا تھا۔ باقی بینک آپس میں مل گئے اور شکایت کی تو میزان والوں کو یہ اشتہار واپس لینا پڑا۔ میں اس بات پر ان دوست کا توا لگا رہا تھا۔
وہ کہنے لگے کہ پاکستان میں بینکوں سے زیادہ پیسہ عام عوام اور بڑے بڑے مولویوں کے علاوہ ان کاروباریوں کے پاس بھی پڑا ہے جو سود کو حرام سمجھتے ہیں۔ یہ بتاتا چلوں کہ سود کی کئی اقسام ہیں اور اک شعوری خیال ہے کہ پرائیویٹ سوشل لینڈنگ کو حرام قرار دیا گیا ہے جس کی شرائط بہت کڑی رکھتے ہیں سود خور، اور پیسوں کے تقاضے کے لیے تشدد بھی کرتے ہیں۔
مثلا، ہماری گلی کے گارڈ نے 12،000 روپے ادھار لیا ہے جس پر ماہانہ سود 3،000 روپے ہے۔ گارڈ جب تک 12،000 اکٹھے واپس نہیں کرے گا، وہ یہ 3،000 روپے ماہانہ دیتا رہے گا۔ نیز، سود پر دیے گئے قرض کے اصل ذر کی واپسی سے پہلے وہ 12،000 اکٹھے واپس نہیں کر سکتا۔ گویا، 12،000 پر چار ماہ میں 12،000 سود ہے اور پھر اس کے بعد تب تک 3،000 روپے چلتا رہے گا جب تک وہ 12،000 اکٹھے پورے واپس نہیں کرتا۔
یہ روایت بہت پرانی ہے۔ شاید آپ جانتے ہوں کہ انگریزوں نے اس پریکٹس کو روکنے کے لیے پرائیویٹ منی لینڈنگ قوانین بھی متعارف کروائے تھے جنہیں بعد میں سلامی جمورے نے کوئی خاص لفٹ نہ کروائی۔
خیر، وہ افسر کہنے لگے کہ لوگوں کو بینکنگ کے نظام میں گھسیڑنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے بینکوں اور ریاست کے پاس سرمائے کی موجودہ حالات کے نسبت بہتر فراوانی ہونے کے چانسز ہوں گے۔ اس کے علاوہ چھوٹے تاجروں کو بھی بینکنگ نظام میں لانا ہوگا اور 90 فیصد مسلمان ملک میں اسلامی بینکنگ کے نام پر سرمایہ کی گردش زیادہ آسان رہے گی۔
بات بہت معقول تھی، مگر میں نے پھر بھی توا لگانا جاری رکھا۔ میرے دوست جو تھے۔ اوہ معذرت، میری کرسی کے دوست جو تھے۔
تب کیا معلوم تھا کہ اسلامی بینکنگ کے نام پر بڑے بڑے سرمایہ دار عوام کو ہی شاندار توا لگا رہے ہونگے۔