اسی لکھاری کی مزید تحاریر

پلاسٹک کی بوتل میں محفوظ بوسہ

جج صاحب کا انصاف تو پورے آرمینیا میں مشہور تھا ہی، مگر ان کی طبیعت کی ملائمت اور حلیم مزاجی بھی اک آفاقی سچائی...

جیدا بیکرز کے جادوئی کیک

قجو جٹ بگڑتے ملکی حالات پر بہت پریشان تھا۔ ملکی معیشت پگھل رہی تھی۔ سیاسی استحکام ناپید تھا۔ خزانہ خالی ہو رہا تھا اور...

کاغذ سے بنے پرندے

تارڑ صاحب پر تنقید احباب کا حق ہے، مگر وہ اردو ادب کے عظیم ناول نگار ہیں۔ حوالہ کل رات اک ڈاکیومنٹری دیکھتے ذہن...

اوئے، باجی ڈر گئی، باجی ڈر گئی

کھوچل میڈیا پر ابھی چند گھنٹے قبل جدید بلوچ دانش کے اک نمائندے لکھاری، جو ڈپریشن ڈائریا کے ماہر ہیں، کے غائب ہونے کی...

افسانچہ: مرد تیری ایسی تیسی

مونا خان پاکستان کی بہت بڑی فیمینسٹ تھی۔ اس کا خیال تھا کہ دنیا میں تمام مسائل کی بنیادی جڑ مرد ہیں اور یہ...

فاشزم کی فاشسٹ لکیر

ڈس-کلیمر: کسی قسم کی بھی مماثلت حادثاتی ہو گی۔ شکریہ۔

ہر قسم کے فاشزم اور فاشسٹ سے انکار کیجیے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ فاشسٹ پہلے حب الوطنی کی انتہا کا بیانیہ لے کر آتے ہیں اور بعد میں اسے قوم کی اس دیو مالائی ترقی کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں جو کبھی ممکن ہی نہیں ہو سکتی۔ یہ دونوں کام کرتے ہوئے وہ اپنی ذات کو ان دونوں معاملات کے ساتھ نتھی کر دیتے ہیں۔

دنیا کے ہر معاشرے میں ایسے سیاستدان پائے جاتے ہیں جو سستے خواب بیچتے ہیں۔ اور دنیا کے ہر معاشرے میں لوگوں کی اکثریت انہی خوابوں کے سہارے زندہ رہتے ہوئے اپنے مسائل کے حل کے لیے شارٹ کٹس تلاش کر رہی ہوتی ہے۔ حالانکہ زندگی میں شارٹ کٹ صرف جنرل مشرف کے دور میں شوکت عزیز کا لگا تھا۔ باقی شارٹ کٹس بھی جنرلز کے دور میں ہی لگے۔

فاشسٹ لوگوں کو اپنے لیبارٹری کے چوہے سمجھتے ہیں اور ان پر اپنے بیانیہ کے ذریعے مسلسل تجربات کیے چلے جاتے ہیں۔ یہ صرف چوہے ہی ہوتے ہیں جو ان تجربات کے نتیجے میں ویسے ہی سوچتے اور کرتے چلے جاتے ہیں جو ان بڑا فاشسٹ چوہا چاہ رہا ہوتا ہے۔ وہ جو چوہے نہیں ہوتے، وہ بیانیہ کے تجربات سے خود کو محفوظ کر سکتے ہیں۔ ان کی تعداد مگر بہت کم ہوتی ہے۔ چوہوں کی اکثریت میں، فاشسٹ بیانیہ کے مسلسل بہاؤ میں مخالف سمت تیرنے والے الٹا آؤٹ کاسٹ ہو جاتے ہیں۔ فاشسٹوں کو لانے والے اور پروموٹ کرنے والے اپنے اپنے فوائد سمیٹ کر بھاگ جاتے ہیں۔ مسائل اور سٹرکچرل ڈیمیجز پھر قوم نے طویل عرصہ بھگتنے ہوتے ہیں۔

آپ سب ہٹلر اور مسولینی کو تو جانتے ہیں۔ ان کے کرتوتوں سے بھی واقف ہیں۔ کبھی مطالعہ کیجیے گا تو یہ جاننے کی کوشش کیجیے گا کہ ان دونوں کو ان کے منصبوں تک پہنچانے والے کون لوگ اور عوامل تھے۔ یہ بھی آپ جانتے ہیں کہ ان دونوں کے مر جانے کے بعد ان کے ملکوں کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ آپ کو یہ بھی شاید معلوم نہ ہو کہ جب برلن فتح ہوا تو سوویت یونین کے توپخانے نے مسلسل 48 گھنٹے شہر پر اندھی گولہ باری کی تھی۔ اب چونکہ نقصان پہنچانے کے ایلیمنٹس بہت ورائیٹی والے ہو چکے ہیں تو یہ اندھی گولہ باری کرنے کے طریقے بھی بہت مختلف ہو چکے ہیں۔

ہر قسم کے فاشسٹ اور ہر قسم کے فاشسٹ بیانیہ سے بچا کریں۔ اک بنیادی پہچان یہ ذہن میں رکھا کریں کہ فاشسٹ ہمیشہ تقسیم کی لکیر سے بات شروع کرتا ہے۔

مبشر اکرم
مبشر اکرم
مبشر اکرم ویہلا آدمی ہے۔ وہ جب ویہلا ہونے سے بھی زیادہ ویہلا ہوتا ہے تو یہاں کچھ لکھ دیتا ہے۔
پڑھتے رہا کرو یارو

جیدا بیکرز کے جادوئی کیک

قجو جٹ بگڑتے ملکی حالات پر بہت پریشان تھا۔ ملکی معیشت پگھل رہی تھی۔ سیاسی استحکام ناپید تھا۔ خزانہ خالی ہو رہا تھا اور پھر اس سے اپنے قریبی...

یہ سوئٹزرلینڈ نہیں، روالپنڈی تھا

پچیس برس پرانی بات ہی سہی، مگر نبیل کہاں بھول سکتا تھا۔ وہ 1997 کے اکتوبر کی اک ہلکی سی خنک شام اور وہ اسلام آباد کا پرانا ائیرپورٹ۔...

جیوے جیوے، بینظیر

میں ان دنوں اک سفارت خانے میں سیاسی امور کی اک ملازمت میں تھا، اور 27 دسمبر کی گہری ہوتی ہوئی شام اپنے تمام دفتری کام نبٹا کر اپنے...

سرگودھے کے مالٹے

شاویز چوہدری بہت گہری نیند سو رہا تھا جب اس کی اک دم ہی آنکھ کھل گئی۔ وہ بہت حیران ہوا کہ زندگی میں پہلی مرتبہ اس کی آنکھ...

پوسڑی دے

آرمینیا کے مشہور مفکر، حماد کافی نے چوپاٹ گیریژن کلب میں 500 افسران اور جوانوں سے خون کو گرما دینے والا خطاب کیا۔ اس نے خطاب میں کہا کہ آرمینیا...

تسبیح رتی لال اے بادشاہو

یہ مبشر زیدی صاحب کا حق ہے کہ وہ جو چاہے لکھیں اور جس پر جیسے چاہیں تیقن کریں۔ مجھے اس حق کا احترام ہے۔ ہر کسی کو کرنا...
error: چوری مت کر۔ اپنا کانٹینٹ خود لکھ کمینے۔