ڈس-کلیمر: کسی قسم کی بھی مماثلت حادثاتی ہو گی۔ شکریہ۔
ہر قسم کے فاشزم اور فاشسٹ سے انکار کیجیے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ فاشسٹ پہلے حب الوطنی کی انتہا کا بیانیہ لے کر آتے ہیں اور بعد میں اسے قوم کی اس دیو مالائی ترقی کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں جو کبھی ممکن ہی نہیں ہو سکتی۔ یہ دونوں کام کرتے ہوئے وہ اپنی ذات کو ان دونوں معاملات کے ساتھ نتھی کر دیتے ہیں۔
دنیا کے ہر معاشرے میں ایسے سیاستدان پائے جاتے ہیں جو سستے خواب بیچتے ہیں۔ اور دنیا کے ہر معاشرے میں لوگوں کی اکثریت انہی خوابوں کے سہارے زندہ رہتے ہوئے اپنے مسائل کے حل کے لیے شارٹ کٹس تلاش کر رہی ہوتی ہے۔ حالانکہ زندگی میں شارٹ کٹ صرف جنرل مشرف کے دور میں شوکت عزیز کا لگا تھا۔ باقی شارٹ کٹس بھی جنرلز کے دور میں ہی لگے۔
فاشسٹ لوگوں کو اپنے لیبارٹری کے چوہے سمجھتے ہیں اور ان پر اپنے بیانیہ کے ذریعے مسلسل تجربات کیے چلے جاتے ہیں۔ یہ صرف چوہے ہی ہوتے ہیں جو ان تجربات کے نتیجے میں ویسے ہی سوچتے اور کرتے چلے جاتے ہیں جو ان بڑا فاشسٹ چوہا چاہ رہا ہوتا ہے۔ وہ جو چوہے نہیں ہوتے، وہ بیانیہ کے تجربات سے خود کو محفوظ کر سکتے ہیں۔ ان کی تعداد مگر بہت کم ہوتی ہے۔ چوہوں کی اکثریت میں، فاشسٹ بیانیہ کے مسلسل بہاؤ میں مخالف سمت تیرنے والے الٹا آؤٹ کاسٹ ہو جاتے ہیں۔ فاشسٹوں کو لانے والے اور پروموٹ کرنے والے اپنے اپنے فوائد سمیٹ کر بھاگ جاتے ہیں۔ مسائل اور سٹرکچرل ڈیمیجز پھر قوم نے طویل عرصہ بھگتنے ہوتے ہیں۔
آپ سب ہٹلر اور مسولینی کو تو جانتے ہیں۔ ان کے کرتوتوں سے بھی واقف ہیں۔ کبھی مطالعہ کیجیے گا تو یہ جاننے کی کوشش کیجیے گا کہ ان دونوں کو ان کے منصبوں تک پہنچانے والے کون لوگ اور عوامل تھے۔ یہ بھی آپ جانتے ہیں کہ ان دونوں کے مر جانے کے بعد ان کے ملکوں کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ آپ کو یہ بھی شاید معلوم نہ ہو کہ جب برلن فتح ہوا تو سوویت یونین کے توپخانے نے مسلسل 48 گھنٹے شہر پر اندھی گولہ باری کی تھی۔ اب چونکہ نقصان پہنچانے کے ایلیمنٹس بہت ورائیٹی والے ہو چکے ہیں تو یہ اندھی گولہ باری کرنے کے طریقے بھی بہت مختلف ہو چکے ہیں۔
ہر قسم کے فاشسٹ اور ہر قسم کے فاشسٹ بیانیہ سے بچا کریں۔ اک بنیادی پہچان یہ ذہن میں رکھا کریں کہ فاشسٹ ہمیشہ تقسیم کی لکیر سے بات شروع کرتا ہے۔