شہر میں بڑے بابا کا عرس بس اک دن دور تھا۔ خلقت تمام پاکستان سے شہر میں ٹوٹی پڑ رہی تھی۔ ہر طرف ہجوم تھا اور بھانت بھانت کے لوگ بھی۔
نوراں بہت خوش تھی۔ اسے معلوم تھا کہ اگلے تین دن خوب رونق رہے گی اور ان تین دنوں میں وہ تقریبا پچاس ساٹھ گاہک تو بھگتا ہی لے گی جو شہر میں بابا جی کے عرس پر منتیں مرادیں مانگنے آئیں گے۔ کام کا سیزن بس شروع ہونے کو ہی تھا۔
نوراں نے اک دم بےاختیار ہو کر خدا کا شکر ادا کیا۔ اس کے بیٹے اور بیٹی کی سکول کی فیس اور بیمار باپ کی دوا کا بندوبست اگلے دو تین ماہ کے لیے تو ممکن ہو ہی جانا تھا۔ اس کے بعد پھر اللہ مالک تھا۔
(اک سروے رپورٹ سے ماخوذ تحریر)