میں چھٹی یا شاید ساتویں جماعت میں تھا۔ سال یہی کوئی 1983 یا 1984 ہو گا۔ جنوبی ایشیائی سٹینڈرڈ بدنظمی کے طفیل، ریلوے مڈل سکول، ملکوال، میں وہی روٹین (اور گھٹیا) کلاس رومز تھے، اور تقریبا چند اک کو چھوڑ کر، ویسے ہی اساتذہ بھی۔ مثلا، چھٹی جماعت سے ارشد صاحب یاد ہیں جو انگلش پڑھاتے تھے اور ساتویں میں اکرم صاحب کہ جن کی عمومی یاد دل میں ابھی بھی محبت کِھلا دیتی ہے۔ اکبر شاہ صاحب بھی تھے، مگر پیر کرم شاہ کے مرید اور طبعا نرم ہونے کے باوجود مذہب کے معاملے میں تقریبا متشدد ہونے کے قریب تر تھے۔ وہ ہمیں مگر آٹھویں جماعت میں پڑھایا کرتے تھے۔
اب بھی شاید ویسا ہی ہو گا، مگر ملکوال میں جانب محلہ صابری، مسیحیوں کی اک بڑی بستی تھی اور ان کا چرچ ریلوے روڈ پر تھا جو پہلے چرچ روڈ تھی۔ پھر ریلوے روڈ ہوئی اور اب شاید وہ مرحوم ججی شاہ صاحب کے طفیل میلاد روڈ ہو گی۔ متحدہ ہندوستان، اور پھر بالخصوص جو پاکستانی پنجاب بنا، میں مسیحیت کے فروغ کے حوالے سے جناب قیس انور عمدہ لکھ چکے ہیں۔ مزید جاننا ہو تو ان کی وال دیکھ لیجیے۔ یاد پڑتا ہے کہ مرحومہ امی جان کی اک سہیلی ایلس صاحبہ ہوا کرتی تھیں، اور وہ اک دبنگ، دھڑلے والی دھڑے دار خاتون تھیں۔ مسیحیوں کے ہی معاملات کے حوالے سے جاوید صاحب بھی ابو کے ساتھ کبھی کبھار مشورہ کر لیا کرتے تھے۔
مسیحیوں کی تعداد کے برعکس، اس تناسب سے ان کے بچے تعلیم حاصل نہیں کرتے تھے۔ چھوٹی عمر میں ہی وہ کام کاج اور مزدوری میں لگ جایا کرتے تھے تو ہماری جماعت میں شاید دو ہی مسیحی طلبا تھے۔ ایک کا نام یاد نہیں، دوسرا لمبا تڑنگا عزیز مسیح تھا۔ اک دن ہمارے اک کلاس فیلو کو عزیز کو مسلمان کرنے کا شوق چرایا اور اس شوق میں میں نے اپنے کزن دانیال بٹ کے ہمراہ ثواب کمانے کا سوچا۔ ہمارے ساتھ اک اور دوست (شاید شبیر) بھی شامل ہوگیا اور ہم چاروں پانچوں نے مل کر تفریح کے دوران عزیز کو گھیر لیا اور کہا کلمہ پڑھو۔ اس لمبو نے بہت سکون سے ہم سب کی طرف دیکھا اور کلمہ پڑھ لیا۔ ہم چاروں نے جنتی ہوا کی اک پرسکون لہر محسوس کی اور اپنی کامیابی پر شدید مسرور واپس “پھڑن پھڑائی” کھیلنے میں مصروف ہو گئے۔
عزیز مسیح، عزیز مسیح ہی رہا۔ اس نے عمدہ طریقے سے اپنی جان چھڑائی اور ہم نے اپنے تئیں ثواب کا اک کنٹینر کما لیا۔
معلوم نہیں عزیز مسیح کہاں ہو گا، لیکن زیادہ خیال یہی ہے کہ اپنی غربت کی صلیب اٹھائے شاید عین وہی مجبوری (خدانخواستہ) کاٹ رہا ہوگا جو اس کی کمیونیٹی نجانے کتنی صدیوں سے کاٹ رہی ہے اور مزید کاٹے گی۔
خواہش ہے کہ کائنات کی کاش کہ کوئی لہر اس تک یہ پیغام پہنچا دے: عزیز مسیح، سوری یار!
آج جب آس پاس اِدھر اُدھر گھومتے پڑھتے اک مذہب کی دوسرے مذہب پر برتری کی باتیں سنتا ہوں تو اک تو خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اور پھر دل کھول کر ہنستا ہوں۔ شکر اس بات پر کہ میں چھٹی/ساتویں جماعت سے آگے نکل آیا۔ ہنستا اس بات پر ہوں کہ بہت سے طارق جمیل پچاس، ساٹھ، ستر کے ہو کر بھی چھٹی جماعت میں پھنسے ہوئے ہیں۔
بیچارے!