گل نصیب خان کی سوشل میڈیا پر دھاک تھی۔ وہ اک بہت پکے اور ابھرتے ہوئے پشتون قوم پرست رہنما کے طور پر اپنی شناخت بنا رہا تھا۔ آج بھی پشاور میں وہ اک سیمینار میں آیا ہوا تھا جہاں اس نے سابقہ قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کی دل کھول اور نہایت ہی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ اپنی تقریر کے دوران اس نے “یہ جو دھشتگردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے” کے نعرے بھی لگوائے۔ اس کی جذباتیت نے پورے ہال کو حال میں مبتلا کر ڈالا۔ نوجوانوں نے ابھر ابھر کر اور بڑھ بڑھ کر اس کی آواز میں آواز ملائی۔
یہ جنون اور جوش دیکھ کر گل نصیب خان بہت مطمئن اور مسرور دکھائی دے رہا تھا۔
سیمینار کے بعد ڈھلتی دوپہر تقریبا تین بجے اس کے پاس ہال میں سے نوجوانوں کی اک ٹولی آئی اور اس سے درخواست کی کہ وہ آج شام پشاور میں ہی رک جائے اور تاکہ وہ نوجوان رات کی میزبانی کر سکیں۔ ابھی وہ ان سے بات کر ہی رہا تھا کہ اس کے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ وہ معذرت کرتا ہوا وہاں سے اٹھا اور کال کا جواب دینے لگا۔
دوسری طرف کے کالر کی بات سننے کے بعد وہ مسکرایا اور کہنے لگا: ہاں بھی ٹھیک ہے۔ آج شام کی تیاری مکمل رکھو۔ آج ہم بنوں سے وانا جاتے ہوئے فوجی قافلے پر لازمی حملہ کریں گے۔ تمام ہتھیار اور سوشل میڈیا تیار رکھنا۔ کل میں یہ ہی کہوں گا کہ یہ ریاست اور پنجاب کے سپانسرڈ ہی لوگ ہیں۔ میں بس ابھی یہاں سے نکل رہا ہوں۔ میرے پیچھے چند بےوقوف پڑے ہیں کہ رات یہیں رکو۔ ان سے جان چھڑا کر میں ابھی آ رہا ہوں۔ تم تیاری پکڑو۔
کال منقطع کرکے وہ واپس مڑا تو اس نے دیکھا کہ بےوقوف نوجوان اس کی جانب ملتجیانیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے مسکرا رہے تھے۔