میرے باجو میں میکائیل سو رہا ہے۔ کچھ کچھ دیر بعد اس کی آنکھ کھلتی ہے۔ میں آواز لگاتا ہوں۔۔۔
Ka’el… I love you…
میکائیل جواب دیتا ہے۔۔
I love you Baba…
اور اس کے بعد میکائیل اپنی رات کی راہ لیتا ہے میں اپنی۔ زندگی اسی کا نام ہے۔ عموماً۔۔۔ زندگی اسی کا نام ہے۔ لیکن ہمیشہ زندگی اسی کا نام نہیں۔ کبھی کبھار زندگی بس نام کی رہ جاتی ہے۔ وہ نام جو زندگی کہلاتے ہیں، ختم ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں زندگی شاید موت سے بدتر ہوجاتی ہو، مگر رہتی زندگی ہی ہے۔
۶ فروری ۲۰۲۳ صبح چار بج کر سترہ منٹ پر ترکی و شام میں ہزاروں جانیں جب ایک بھرپور زندگی گزار کر محو خواب تھیں، ان کی زمین حقیقتاً پلٹ گئی۔ سات اعشاریہ آٹھ ریکٹر سکیل شدت سے قدرت نے انسانی زندگی کو کئی منٹ تک ہلا کر رکھ دیا۔ جانے کتنی بیٹیاں باپ جنہیں بوسہ دے کر سونے گئے تھے، کے لیے یہ آخری بوسہ ثابت ہوا ہوگا۔ جانے کتنے بیٹے جو ماؤں کے گلے لگ کر شب بخیر کہتے سوئے ہوں گے، کی آئیندہ ہر ہر شب خیر سے عاری ہو چکی ہوگی۔ جانے کتنی خیر پرست مائیں ہوں گی جن کے لیے خیر،اب قصہ پارینہ کی حیثیت حاصل کر چکی ہوگی۔ جانے کتنے باپ ہوں گے جن کی شب آج کے بعد شب نہ رہی ہوگی۔
ہمارے ارد گرد ہر دوسرا فرد زندگی کو ایک نظام کے تابع مان کر اس نظام کی توجیہات دینے میں مصروف رہتا ہے۔ کوئی کسی کیفیتکو خدا کا انعام قرار دیتا ہے تو کوئی کسی اور کیفیت کو خدا کا امتحان۔ کوئی امتحان کو عارضی بتلاتا ہے تو کوئی کسی آنے والے انعام کے دائمی ہونے کی وعید سناتا ہے۔ حقیقت مگر نہایت ہی سادہ سی ہے۔ زلزلہ آیا۔ زمین پھٹی۔ کسی کی اولاد نگلی گئی کسیکے والدین نگلے گئے۔ کسی کی بہن مر گئی۔ کسی کا بھائی وفات پا گیا۔
اور ایسا کیوں ہوا؟
توجیہات در توجیہات در توجیہات در توجیہات
ہزاروں زندگیاں، ہزاروں سانس لیتے نفوس، ہزاروں خوشی خوشی نیند کی آغوش میں پڑے انسان۔۔۔ بس ایک ہی لمحے میں۔۔۔ مر گئے،ختم ہوگئے، لقمہ اجل بن گئے۔
اور جو بچ گئے ان میں سے جانے کتنے ایسے ہوں گے جو اجل کے خونخوار دانتوں سے شکایت کر رہے ہوں گے، کہ ہمارے اجسام میںبھی گڑے جاتے، کہ پیارے لے گئے تو ہمیں کیوں چھوڑ دیا۔
ایک زندگی میں انسان جانے کتنے ہی جذبات و کیفیات سے گزرتا ہے۔ ہنسی، مسکراہٹ، خوشی، کھلکھلاہٹ، فرحت، محبت، عشق،الفت، انسیت، نفرت، غصہ، جوش، ولولہ۔۔۔ اور پھر ہزاروں انسانوں کے جذبات و کیفیات۔
چند منٹ کے جھٹکے اور سب ختم۔
پڑھیے “انا اللہ مع الصابرین”
کیف؟ کیسے؟ کس طرح؟
اور پھر اصرار اس پر کہ خالق سے شکوے شکایت بھی نہ ہوں؟ اس سے گلے بھی نہ ہوں اعتراض بھی نہ ہو؟ یقین کر لیا جائے کہشکایت بیکار تو ہے ہی، عذاب کا باعث الگ بنے گی؟
میرا خیال ہے انسان اس حد تک manipulative مخلوق ہے کہ ضرورت پڑنے پر خود کو بھی manipulate کر ہی لیتا ہے۔
پس اسی لیے میرے دوستو، پڑھیے “انا اللہ مع الصابرین”
بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔