اسی لکھاری کی مزید تحاریر

عشقِ حقیقی

وہ رب کی ذات کی جانب رجوع کر چکا تھا۔ دنیا کی چک و چوند کر دینے والی روشنی اسے اپنی مانند متوجہ کرنے...

زندگی ایک شٹ شو ہے

“ہیں؟ یہ حاجی صاحب ہیں؟ فرینچ کٹ؟ چڈی بنیان میں؟” شاہزیب نے پوچھا۔ “ہاں جی۔۔۔ اپنے زمانے میں سارے چسکے پورے کیے ہیں، ہمیں کہتے ہیں...

آنے والی کتاب “پینچو بہتان” سے اقتباس

کتاب: “پینچو بہتان” مصنف(ہ): پتہ نہیں قیمت: 96 روپیہ سکہ رائج السخت انتساب: محبت کا پہاڑ سر کرنے والے ہر رنگ برنگی کے نام باب: محبت کا پہاڑ گوٹھ...

خوف فروش

جسم فروشی کے بارے میں شنید ہے کہ انسانی معاشی نظام کا قدیم ترین پیشہ ہے۔ پیشہ ھذا مہذب ممالک میں آج بھی مخدوشریاستوں...

دنیا۔۔۔

دبئی میں یہ میرا پہلا رمضان تھا۔ انصاری اور میں نے بہت اہتمام کے ساتھ زمان و مکان کا تعین کیا تھا کہ فلاں...

ایک بداخلاق کا نظریہ اخلاقیات

اخلاقیات کا مآخذ اچھائی اور برائی کے درمیان تفریق پر مبنی ہے۔ اچھائی اور برائی کا تصور کسی بھی معاشرے میں ایک متفقہنظام نافذ کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ یعنی اگر معاشرے میں کوئی متفقہ قانون نافذ کر کے ممنوعہ و غیر ممنوعہ افعال کے درمیانتفریق کرنی ہے تو اس کے پیچھے منطق وہی اچھائی اور برائی کی ہوتی ہے۔ اب یہ معاشرتی اچھائیاں یا برائیاں ہم کہاں سے لیتے ہیںیہ دراصل معاشرتی خصوصیات، نظریات، اور آج سے چند دہائیوں پہلے تک مذاہب پر بھی منحصر تھا۔

پچیس تیس برس ہوئے کہ ریاستیں اور معاشرے مذہب کی جانب سے وضع کردہ اچھائیوں اور برائیوں سے بتدریج دور جبکہ شخصیحقوق کے بتدریج قریب آنے لگے۔ کچھ مقامات پر یہ شخصی آزادی اور مذہب اکٹھے ہیں تاہم بہت سے مقامات پر ان میں ۱۸۰ درجہزاویہ فرق بھی ہے۔ اس ارتقائی عمل سے ظاہر ہے مذہب اور مذہبی ذہن رکھنے والوں کی مخالفت سامنے آئی تاہم کسی نہ کسی طرحشخصی آزادی پر مبنی اچھائی اور برائی کی تفریق قریب قریب ہر معاشرے میں سرایت کر چکی ہے۔ باچیز اپنے سوچ کے ارتقاء کےدوران ایک سے زائد ایسے ہی معاشروں کا رکن رہا ہے جہاں شخصی آزادی کا تصور مذہبی اخلاقیات میں کلہاڑی مارتا رہا ہے۔ یہبتانا اس لیے ضروری تھا کہ جہاں کہیں میری سوچ یا افکار آپ کو اپنے مذہبی یا معاشرتی قوانین سے ٹکراتے محسوس ہوں تو آپباچیز کو بد عمل یا بے عمل مسلمان مان کر شہباز گل پر بٹھا دیں۔ آپ کی تخیلاتی چدک سے بخدا مجھے نہ اچھا نہ برا فرق پڑے گا۔ہاں آپ کو سکون ضرور ملے گا، یقیناً اس کی قیمت آپ جانتے ہی ہوں گے۔

چونکہ یہ مضمون باچیز کے ذاتی نظریات و تصورات پر مبنی ہے لہذا میں کبھی یہ نہیں چاہوں گا کہ میں انہیں کسی پر بھی تھوپڈالوں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ میری اپنی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اس فریم ورک پر حتی الامکان عمل ہو۔ شاذ و نادر تخصیصات کوچھوڑ کر یہ عمل ہوتا بھی نظر آتا ہے۔

اس فریم ورک کے چیدہ نکات مع متعلقہ منطق از مخ المعاذیہ پیش خدمت ہیں۔

۱۔ گالیاں۔۔ تالیاں!

گالیاں ہمارے معاشرے میں منفی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیکن اسی معاشرے میں اور بہت کچھ بھی منفی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی کاناجائز دل دکھانا منفی ہے۔ کسی کا حق کھانا منفی ہے۔ کسی کو دھوکہ دینا منفی ہے۔ کسی کو حقیر سمجھنا منفی ہے۔ اپنی حیثیتکا فائدہ اٹھانا منفی ہے۔ رشوت دینا منفی ہے۔ رشوت لینا منفی ہے۔ اپنا قلم بیچنا منفی ہے۔ بہت کچھ منفی ہے۔ گالیوں کی توجیہہ یہنہیں کہ چونکہ اور بہت سے کام منفی ہیں لہذا گالیاں دینا بھی جائز ہے۔ نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ بھونسری کے تب تک سنتے ہینہیں جب تک انہیں بھونسری کے کہہ کر نہ پکارا جائے۔ مطلب آپ پچیس تیس ہزار فالوورز بنا کر جو چتیاپہ چاہیں بیچنا شروع کر دیںاور مکالمے کی بات کرنے یا آپ کے بیان کردہ کسی بیانیے کا شرافت پر مبنی جواب دینے پر آپ مکالمہ کرنے سے فرار ہوجائیں، یعنی آپچاہتے ہیں یکطرفہ بیانیہ چلتا رہے اسے چیلنج نہ کیا جائے؟ اور چونکہ آپ کا بیانیہ اہل چول کے یہاں اتنا مقبول ہے کہ شرافت کیزبان میں جواب سنا ہی نہ جا سکے، تو ایسے میں آپ کو بیچ چوراہےاوئے بات سنکہہ کر ہی پکارنا پڑے گا۔ آپ دیکھیں گے کہ تبجوانی بیانیہ اور زیادہ سنا جائے گا۔ معاشرے کو ہائی جیک کرنے والے لوگ شرافت کی زبان سنتے کہاں ہیں؟ اور بھلا شرافت کیزبان میں ہمیں کوئی دلچسپی بھی ہوتی ہے؟

لیکن۔۔۔ میں فقط گالیاں دینے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب جب اور جہاں جہاں گالی دی جائے اس کے ساتھبین السطور مثبت پیغام بھی پنہاں ہو۔ مزید برآں گالیوں کا حقدار شخص معاشرے میں بگاڑ کا مؤجب ضرور ہو۔ یعنی ضروری ہے کہگالیوں کے اصل حقدار ہی کو گالیاں پہنچیں۔ معاشرے میں بگاڑ کا ذمہ دار ہر شخص گالیوں کا حقدار ہے، پھر وہ عمران خان ہو،خاکوانی ہو، طارق جمیل ہو یا حماد صافی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو چورن بیچتے ہیں۔ جن کا عمل ان کی تقریر سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہوہ لوگ ہیں جو ریاست پاکستان کو تین ہزار سال پیچھے لے جانے پر مصر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی تعظیم نے معاشرے میںحساسیت بڑھا بلکہ بڑھا چڑھا کر ایسے مقام پر پہنچا دی ہے جہاں ان کے بیانیے کا ہومیوپیتھک مخالف بیانیہ بھی الٹا آپ کو گالیاںپڑواتا ہے۔ تو بھیا، جب ایک فریق نے مخالفت پر گالیوں کا طوفان مچانے کا تہیہ کر رکھا ہے تو کم از کم میرا نام یسوع مسیح یا بدھاتو نہیں۔ میں تو ولی اللہ نہیں۔ میں تو عام سا انسان ہوں۔ گوشت پوست کا بنا، گناہ گار انسان۔ جب تک انہیں انہی کی زبان میںجواب نہ دیا جائے یہ لوگ سمجھتے نہیں۔ لہذا میں تو دوں گا گالیاں اور ٹکا کر دوں گا۔

ہاں گالیاں دیتے یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ آپ کی گالیاں عورت کے گرد نہ گھومتی ہوں۔ کیونکہ مرد کا عورت کو لے کر غیرت کا ایکخول بنا لینا اور پھر اس خول پر حملہ کر کے عورت کی تحقیر کر کے فتح محسوس کرنا بذات خود ایک گھٹیا عمل ہے۔ میری تربیتاسی معاشرے میں ہوئی کہاں چادر مود اور چین پود تقریباً تکیہ کلام ہوتا ہے، لہذا بدقسمتی سے اس کی باقیات ابھی تک مجھ میںباقی ہیں۔ اس کے باوجود میں اپنی زیادہ تر گالیاں sanitize کر کے خواتین سے مرد کی طرف گھما چکا ہوں۔ جو رہ گئی ہیں وہ بھیہوجائیں گی۔

لہذا احباب گرامی۔۔۔ میں تو دوں گا گالیاں۔۔۔ تالیاں!!! جسے تکلیف ہو وہ مجھے دو گالیاں دے کر یاہائے میں مر گئیکہہ کر بلاککر دے۔ نو ایشو۔ گالیاں دیجیے، رج کر دیجیے، مگر وہاں جہاں ان کا اچھا اثر پڑتا نظر آئے۔

۲۔ معاشرے کا عورت سے آج تک کا رویہ اور اس کا باچیز کی سوچ اور عمل پر اثر

آپ مجھے فیمنسٹ کی فہرست میں ڈال سکتے ہیں۔ مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔ تاہم میں الٹرا پرو میکس فیمنزم سے متفق نہیں۔ میںفیمنسٹ کس حد تک اور کیوں ہوں اس پر بھی بات کر لیتے ہیں۔ دیکھیے انسانی تاریخ میں عورت کو مختلف نظریات کے تحت وہ آزادینہیں دی گئی جس کی کوئی بھی عورت بحیثیت انسان مستحق ہے۔ جیسے مجھے اپنے ابا کی قبر پر سکون محسوس ہوتا ہے ویسےکی کسی بھی عورت کو محسوس ہو سکتا ہے۔ لیکن اس پر مذہبی قدغن لگا کر عورت کو قبرستان جانے تک سے روکا جاتا ہے۔ میرےنزدیک یہ صنفی امتیاز کی ایک بہت بری شکل ہے۔ بدقسمتی سے یہ صنفی امتیاز ہماری شخصیت میں اس حد تک رچ بس چکا ہے کہکئی مقامات پر ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ہم صنفی امتیاز کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

تاہم میں مرد کو ہر جگہ ہر موقع پر غلط ماننے کے خلاف ہوں۔ یہ وہ الٹرا پرو میکس فیمنزم ہے جس کے تحت چند خواتین مرد ظالم ہےمرد مجرم ہے پر یا تو یقین رکھتی ہیں یا اس حد تک تکرار کرتی ہیں کہ انہیں دوسرے معاشرتی مسائل یا نظر نہیں آتے یا آتے بھی ہیںتو اس کا ذمہ دار بھی مرد ہی ٹھہرتا ہے۔ مثلاً رشوت لینا ایک معاشرتی مسئلہ ہے تاہم اس کا ذمہ دار اگر اس لیے ہے کہ رشوت لینےوالے زیادہ تر مرد ہی ہوتے ہیں تو بھیا معذرت۔ ہم نے خواتین کو موقع نہیں دیا ورنہ الحمد للّٰہ رشوت صنفی نہیں انسانی کردار کامسئلہ ہے جس کا جنس سے کوئی تعلق نہیں۔

اس کے باوجود، چونکہ عورت چاہے جس معاشرے کی بھی ہو صنفی امتیاز کا نشانہ رہی ہے لہذا اسے ریورس کرنے کے لیے میں چندایسے کام بھی کرتا ہوں جو مردوں کے حق میں برابر محسوس نہیں ہوتے تاہم صنفی مساوات کا لاگو کرنے کے لیے فی الوقت ضروریہیں۔ اس کی ایک مثال، میں کسی بھی عورت کے کردار پر بات نہیں کرتا، بیشک اس کی آڈیو یا ویڈیو ہی کیوں نہ لیک ہوجائے۔ ٹھیکہے، ہر بندے بندی کی ایک نجی زندگی ہوتی ہے۔ اس پر ٹھٹھہ صرف اسی وقت لگ سکتا ہے جب صاحبِ ٹوٹا یا خاتونِ ٹوٹا دنیا کےسامنے سکھی ساوتری دکھاتے ہوں، جب کوئی بندہ دنیا کو کہتا ہو کہ بچوں کو موبائل مت دو یہ ٹوٹے دیکھتے ہیں مگر خود اپنی نجیزندگی میں کریمیں ٹپکاتا پھرتا ہو۔ تب بندے کا پورا توا لگنا چاہیے۔ اس میں بھی اس فریق کے کردار کو لے کر میں ذاتی طور پر باتکرنے سے گریز کرتا ہوں جو دنیا کے سامنے حاجی نہ بنتا ہو۔ مثلاً خان صاحب اور عائلہ ملک کے صوتی ٹوٹوں میں مجھے عائلہ ملککہیں منفی نظر نہیں آئی۔ اس نے وہی کیا جو ہم میں سے اکثر کرتے ہیں یا کرتے رہے ہیں۔ لیکن اگر ہم دنیا کے سامنے حاجی ثناء اللہبنیں اور نجی زندگی میں عمران خان یا عائلہ ملک تو یہ چورن بیچنے والی بات ہوجائے گی۔ تب رج کے شغل لگانا بنتا ہے۔ اور یہ شغلمعاشرے پر اچھا اثر مرتب کرے گا۔

۳۔ فکری یا نظریاتی اختلاف پر ردعمل

یہ وہ معاملہ ہے جس کے باعث باچیز نے بہت سے دوست پیارے دوست کھوئے ہیں۔ فقط ہیٹ آف دی مومنٹ میں بلاوجہ کی بحث چھیڑنااور اس پر مصر ہوجانا بیکار ہے۔ اب اپنی حکمت عملی یہ ہے کہ ہر فرد کے ساتھ فکری یا نظریاتی معاملے پر اختلاف کرنا ضرورینہیں۔ اس کام کے لیے نہایت ہی مختصر مثلاً زیادہ سے زیادہ دو تین دوستوں کی وال کو یہ privilege حاصل ہو کہ مابدولت وہاںسیاسی، مذیبی، معاشرتی معاملے پر اختلافی رائے زنی متواتر یا فقط ایک نوٹ کے طور پر چھوڑ جائے۔ باقیوں کی بات بیشک خرافاتیہی کیوں نہ لگے، کنی کترا کر نکل جاؤ۔ فرینڈ لسٹ کے باہر کسی کی جلانا مقصود ہو اس کی پوسٹ یا کمنٹ پر لافٹر ری ایکشن مارواور چلتے بنو۔ جس کی بہت جلانا مقصود ہو اس کی پوسٹ یا کمنٹ کا سکرجن شاٹ لے کر سیدھی سیدھی ہجو لکھ دو۔ اور یہ ایمانضرور رکھنا چاہیے کہ یہ ہجو اگلے تک پہنچ ہی جائے گی۔ جس کا دن اجیرن کرنا ہو اس پر دو تین ہجو کس دو۔ فرینڈ لسٹ کے اندرکسی سے اختلاف مقصور ہو تو یا تو اپنی وال پر پوسٹ کا ریفرنس دے کر یا پھر اپنی پوسٹ کے کمنٹس میں۔ کسی دوسرے کی وال پرکمنٹس میں اختیار ویسے بھی کم ہوتا ہے، اور جو ہوتا ہے وہ کوئی بھی تیسرا بندہ ہائی جیک کر سکتا ہے۔

۴۔ دفاعِ ناموسِ دوستاں

یہ بہت اہم اصول ہے۔ دیکھیے منہ سے ہگنے والے ہر جگہ اور ہر بندے کے متعلق ملتے ہیں۔ اگر میں اپنے کسی دوست کا ذکر اپنی والپر کرتا ہوں تو یقیناً اس کے متاثرین یا مبلوکین کی کوشش ہوگی کہ اپنا ساڑ میری پوسٹ کے نیچے کمنٹس میں پھونکیں۔ یہ اب میریذمہ داری ہے کہ ایسا ہونے سے حتی الامکان روکوں اور اگر کوئی ایسا کرے تو اسے اپنے شہباز گل کی سیر کروا کر چلتا کروں۔کسی کی پوسٹ یا بات یا اظہار خیال کا ریفرنس دینا بری بات نہیں، تاہم ایسا کرنے کے بعد کمنٹس میں اس دوست کی عزت کاستیاناس کرنے کی ذمہ داری مجھ پر ہی عائد ہوتی ہے۔ پس میری وال پر پوسٹ میں مذکور میرے کسی محترم کے بارے میں کمنٹس کیصورت میں ساڑ پھونکنے کی اجازت نہیں۔ آپ نے جو کرنا ہے اپنی وال پر کریں۔ مجھے کوئی خاص اعتراض نہیں۔  میری وال میریبیٹھک سمجھیں جہاں میرے اصولوں کا اطلاق ہوگا۔ دنیا میں چوتیے بہت موجود ہیں۔ لہذا میں کسی چوتیے کی جانب سے دفاع ناموسدوستاں کا چمکتا ستارہ نہیں بن سکتا۔ ہاں اپنی وال پر میں دوستوں کے تقدس پر حملہ آوری کی ہر ممکنہ حد تک حوصلہ شکنیضرور کروں گا۔

۵۔ فرینکنیس۔۔۔ واؤ

یہ مزے کا اصول ہے۔ بھائی بات سیدھی سی ہے۔ میں کسی سے منہ اٹھا کر شغل مذاق نہیں کرتا۔ پہلے سلام دعا ہوتی ہے، پھر باتکرنے کا طور طریق دیکھا جاتا ہے، پھر اختلاف پر بندہ پرکھا جاتا ہے، پھر غصہ دلا کر جانچا جاتا ہے۔ اس کے بعد کہیں جا کر اتنیفرینکنیس بڑھتی ہے کہ پیشہ ورانہ جگتوں کا تبادلہ ہو سکے۔ اس سے پہلے ہلکا پھلکا شغل مذاق، مسکراہٹ بھرے کمنٹس تبصرہجات۔ پھر آپ باچیز پر ضرور جگتیں ماریے۔ کوئی مسئلہ نہیں۔

لیکن دیکھیے، فرینکنیس یکطرفہ محبت نہیں، یہ دو طرفہ ٹریفک ہوا کرتی ہے۔ اس لیے میں پری میچیور فرینکنیس کو بھرپور جوابیفرینکنیس کے ساتھ سود سمیت واپس کرنے کا عادی ہوں۔ بناتے ہیں پھر فرینک تعلقات۔ بسم اللہ کیجئے۔

۶۔ تعلق، ترک تعلق اور ما بعد از تعلق

تعلق کا بہت گہرا تعلق ظرف کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ حقیقت البتہ اس وقت سامنے آتی ہے جب تعلق سے ترک تعلق کا مرحلہ آئے اور ترکتعلق کے بعد قطع تعلق کا۔ جب تک آپ تعلق کی ڈور میں بندھے رہتے ہیں، سب اچھا رہتا ہے۔ جس وقت ترک تعلق کی نوبت آئی ظرفوہیں سے آزمایا جانا شروع ہوگا۔ بعد از تعلق جس طریقے سے تعلق اور تعلق دار کا ذکر ہوگا، سوچ ہوگی، عمل ہوگا بس وہی ظرف کاتعین ہوگا۔

ایک زمانے میں بلاک یا انفرینڈ پر باچیز کو بہت غصہ آتا تھا۔ اب غصہ تو نہیں البتہ دکھ ہوتا ہے وہ بھی شاذ۔ بصورت دیگر ابحساب رکھنے مشکل ہیں۔ پرانے حساب جتنے ہو چکے وہی کافی ہیں۔ قطع تعلقی پر چھتیس کے آکڑے کم ظرفی کا تقاضہ کرتے ہیں،دماغی وسائل کا الگ۔ لہذا اپنی ذات، اپنے ظرف اور اپنے ذہنی وسائل کی حفاظت کرنا اور قطع تعلق کے بعد قطرے بہا کر اسے بھولجانا کم از کم اپنا اصول یہی ہے۔ مزید برآں، جس فرد کے ساتھ ایک بار دسترخوان پر کھانا کھا لیا جائے اس پر سات خون معافہیں۔

۷۔ بحوالہ تھڑا پن اور ٹھرک

یار یہ بڑا دلچسپ معاملہ ہے۔ سین یہ ہے کہ اپنی شادی بہت وقت پر ہوگئی تھی۔ لہذا وطن عزیز کے کئی انمول ہیروں اور کھیروں کیطرح تھڑا پن ویسے ہی کم رہا۔ اس کے بعد مزید کسر دبئی میں سات آٹھ سال گزارتے پوری ہوگئی۔ جو کہیں ہلکا پھلکا سقم رہ بھیگیا تھا وہ آسٹریلیا نے پورا کر دیا ہے۔ لیکن پھر بھی بندیاں اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ اب سیدھی سی بات ہے، مسئلہ جنسی کششکا ہوتا تو وہ ہر جگہ پورا ہو ہی جاتا ہے بلکہ اس سلسلے میں آسٹریلیا تو بہت مزے کی جگہ ہے۔ لیکن فیس بک پروفائل تا انباکس شاہدہیں کہ اپنا مسئلہ الحمد للّٰہ سیکس کبھی نہیں رہا۔ ہاں گالیاں دیتی اور ٹکا کر گہرا طنز کرنے والی خواتین اور مرد بہرحال اپنا ایکمقام رکھتے ہیں۔ لہذا بفضل خدا شہر سلطان کے مشہور آرگیزمک یوتھیے کی طرح نہ حکیم سے علاج کا مسئلہ ہے نہ مدینے سے پیدلآنے کا البتہ بھیا کشش جہاں سے کھینچتی ہے وہ کھینچتی ہے۔ لہذا اپنی اخلاقیات کا ایک معیار یہ بھی ہے کہ کسی بھی انسانسے ہر طرح کی گپ لگاؤ مگر کسی چوتیا نیت سے نہیں۔ اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سوائے کسی پرسنل انفارمیشن کے، جوopenness انباکس کمنٹس میں ہو وہی انباکس میں بھی۔ پھر وہ مرد حضرات ہوں یا خواتین۔ یہاں یہ اقرار کرنے میں بھی کوئیپشیمانی یا پریشانی نہیں کہ باچیز کو کسی خاتون کی تصویر اچھی لگے تو اس پر قلبی رد عمل دینا باچیز ٹھرک میں نہیں گردانتا۔ٹھرک وہ ہوتی ہے جو آپ کو اگلی یا اگلے کے قریب جانے پر مجبور کرے۔ اور اپنی حد یہ ہے کہ بندہ بن، اے کم کدی نئی کرنا۔

۸۔ سیاسی افکار اور تعلقات پر اثر

بھئی میری بہترین سنگت انصافی احباب کے ساتھ ہے۔ گنوا سکتا ہوں وہ لوگ جن کے ساتھ زندگی کے مشکل ترین وقت میں ساتھ رہاچاہے مشکل وقت ان کا ہو یا میرا، میں سے اکثر سیاسی اعتبار سے مخالف ہیں۔ تاہم ایک بار ضرور سیکھی کہ سوشل میڈیا پر بحثنہیں کرنی، یا کرنی بھی ہے تو کل ملا کر ایک سے دو دوستوں کے ساتھ۔ باقی آپ عمران خان کو علیہ السلام کے کھونٹے پر لٹکائیں یانواز شریف کو، میری طرف ٹھنڈ ہی ٹھنڈ ہے۔ البتہ، اس ضمن میں اصول یہ ہے کہ آپ مخالف کی اچھی جگتوں اور طنز کو بھیسراہیں گے۔ نیز، ذاتی حیثیت میں بیشک اپنے سیاسی خدا کو اصلی والا خدا سمجھ لیں، بس مجھ پر یہ تبلیغ نہیں کریں گے، اور نہمیں ایسا کروں گا۔ زیادہ تر انصافی پیاروں کے ساتھ یہی ان کہی انڈرسٹینڈنگ ہے۔ جس کے ساتھ نہ ہو وہاں خاموشی اختیار رکھیجائے۔ کوئی انگلی کرتا ہے تو دو تین بار موقع دیا جائے۔ بار بار انگلی کرے تو اپنے بازو کے نشان پھر بیشک اندر تک چھاپ کر چلتےبنیں۔ کوئی مسئلہ نہیں۔

۹۔ فرد کے مذہبی خیالات اور میری بار بی کیو مشین

سوشل میڈیا پر میرا ظہور شیعہ سنی بحث سے ہوا تھا۔ یہ ۲۰۰۸ کی بات ہے۔ تب میں نے غیر سرکاری طور پر پہلی بار اپنا مسلکتبدیل کیا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ یوں چلا کہ ایک دن میں مسلک سے عاری ہوگیا۔ اب بھائیوں بات یہ ہے کہ مجھے کوئی ٹینشن نہیںہوتی اگر میں نے روزہ کسی بھی اذان کے ساتھ کھول لیا، یا وضو کرتے موزے نہ اتارے۔ اس ضمن میں ایک اور دلچسپ واقعہمختصرا عرض ہے، میں کوئی دو یا تین روزے ایک عدد Deli سے کھول چکا ہوں، باقاعدہ اللھم انی لک صمت پڑھ کر۔ وہ ڈیلی بعد میںسور کے گوشت پر مبنی نکلیں۔ میں نے جب کھائی تو مجھے معلوم نہیں تھا۔ اس کے باوجود میرا یقین ہے کہ روزہ قبول ہوا ہوگا۔ کہنےکا مقصد یہ ہے کہ آپ مذہبی کے حق میں یا خلاف جتنی زور کی پوسٹ کریں، خدا کی قسم میری بار بی کیو مشین کو کوئی فرق نہیںپڑتا۔

۱۰۔ دوستوں کے چوتیا تبصرے اور ان پر ردعمل

مجھے چوتیا تبصرے نہیں پسند۔ مثلاً مجھے کسی خاتون چاہے اس کا تعلق جس فیلڈ یا جس جماعت سے بھی ہو، کے اعضاءمخصوصہ پر گفتگو یا جگت یا پھبتی نہیں پسند۔ بہت کھلی مثال اس لیے دے رہا ہوں کہ میں مثلاً کسی خاتون کو مالی طور پر کرپٹسمجھتا ہوں۔ یہاں تک بات ٹھیک ہے۔ اب آپ مجھے کہیں گے کہ وہ جسم فروشی میں ملوث ہیں یا جسم فروشی کا اڈہ چلاتی ہیں تومعذرت۔ میں اس بارے میں نہ رائے دوں گا نہ آنے والی رائے پر تبصرہ کجا لائیک یا کمنٹ تک کروں گا۔ یہ میں کر سکتا ہوں۔ پس آپ کوکسی کمنٹ پر ردعمل نہ ملے تو سمجھ لیجئے مس ہوگیا یا۔۔۔ مس کر دیا۔ ایسے میں ایک بار اپنا کمنٹ چیک کر لیجیے۔ ممکن ہےسمجھ آجائے کہ چوتیا کمنٹ ہے یا نہیں۔ یہ میرا ذاتی اصول ہے، آپ اسے بھی چوتیا سمجھنے کا حق رکھتے ہیں۔

۱۱۔ نفرت سے گریز

کئی برس پہلے میری بیٹی کے ساتھ ایک تصویر کو لے کر مولویوں کی جانب سے نہایت ہی نیچ، گھٹیا اور pedophilic تبصرہ جاتمجھے عطاء کیے گئے تھے۔ میں پہلی بار ایسی کسی صورتحال سے گزر رہا تھا لہذا کافی دکھ ہوا۔ ہاں مگر ایسا شروع کرنے والےسے نفرت نہیں ہوئی۔ میں نے اگلے دن اس بندے کا نمبر ڈھونڈ کر نکالا، اور اگلے دن اس سے بات یوں شروع کی، کہ کیا تمہارا مذہبیہ تعلیم دیتا ہے؟ اس کے پاس جواب نہیں تھا۔ بس وہیں سے بات شروع ہوئی اور تین چار گھنٹے میں وہی بندہ مجھ سے معذرت کاطلبگار تھا۔ مجھے اس فرد یا اس کے قبیل سے نفرت نہیں ہوئی۔ نفرت ایک نہایت ہی منفی جذبہ ہے۔ کم از کم اتنا تو ضرور کہ آپ کیشخصیت اور منطق دونوں کو فرینچ فرائز اور گارلک ساس کے کمبو کی طرح کھا جاتی ہے۔ تنقید جس پر چاہے جیسے چاہے ہو، نفرتتو مجھے عمران خان جیسے چتو تک سے نہیں۔ اور نفرت۔۔۔ کرنی بھی نہیں۔ نفرت انسان کو اندر سے کھا کر زومبی بنا ڈالتی ہے۔ اورمیں تاحال انسان بھی پورا نہیں بن پایا۔ لہذا نفرت کرنا اپنی لغت سے باہر کا اصول ٹھہرا۔

۱۲۔ جھوٹے اکابرین، معززین اور اسلاف کی پھُد اور بھَد

سوشل میڈیا اور سوشل میڈیا سے باہر عجیب الخلقت انسانوں کی ایک بڑی تعداد ہے نو اپنے اپنے اکابرین، اپنے طور پر معززین اوراپنے اسلاف کو جانے کیا سمجھ بیٹھے ہیں۔ بھئی بپا جانی آپ کے لیے اکابرین میں ہوں گے، آپ نفیس و نستعلیق طریقے سے چوتیاقسم کا بیانیہ پھینکنے کے عادی ہوں گے، آپ کے اپنے اسلاف ہوں گے اپنے پیر ہوں گے۔ یار سادہ سی بات ہے، میرے لیے سب کے سبانسان ہی ہیں۔ لہذا میں ان کے قد کاٹھ حسن و جمال کی بجائے ان کے کہی گئی بات کے متن کو بنیاد بنا کر اس پر تنقید کرنے کا پوراحق رکھتا ہوں۔ آپ بھی یہی حق رکھتے ہیں۔ ابراہیم ع کی بت پاشی کے معاشرتی ثمرات تو خیر ہوں سو ہوں، میرا خیال ہے آج کےدور میں بت توڑنے کا الگ ہی فائدہ ہے۔ اس پر تفصیل پھر کبھی۔

۱۳۔ غیر مقبول بیانیہ جات

یہ اصول خاص طور پر ہمارے الٹرا پرو میکس لبرل و سیکولر احباب کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنایا گیا ہے۔ دیکھیے ترقی پسند سوچ کیبنیاد ہی قدامت پسند نظریات کی کھدائی کر کے اس میں منطق کا گیڑا ڈالنا رہا ہے۔ بات اصول کی ہے۔ آج کے مقبول بیانیے پچاسسال قبل کے مقبول بیانیوں کی نسبت کافی الگ ہیں۔ لہذا کسی کا بیانیہ کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو، وہ ایک نظریے ایک سوچ پر مبنیہے۔ سوچ آج مذہبی مائینڈ سیٹ کی محفوظ نہیں پھر کوئی یہ امید کیسے رکھ سکتا ہے کہ نسبتا نئے بیانیے پر فقط اس وجہ سے تنقیدنہ کی جائے کہ وہ مقبول ہے اور اس پر بات کرنے سےہائے میں مر گئیکی صدائیں بلند ہوجائیں گی؟ نہیں بھئی۔ بات تو ہوگی،ضرور ہوگی، ڈنکے کی چوٹ پر ہوگی۔ بات کرنے دینا ہوگی۔ سو بھیا۔۔۔ آپ کا بیانیہ کتنا بھی سیکسی، خوبصورت، حسین اور ماہ نوربلوچ کی طرح مقبول کیوں نہ ہو، جانی میں نے بات کرنی ہوگی تو میں کروں گا۔ اس پر ممکن ہے کسی کو وٹ چڑھیں لیکن اس پر مثبتبات ہونی چاہیے میرا اصول تو یہی ہے۔ پھر وہ بات یا مؤقف سننے میں پڑھنے میں کتنا ہی gross کیوں نہ لگے۔ بات تو ہوگی، اوراچھے کے لیے ہوگی۔ ہاں بات کرنے کے مضمرات پر کر لیں بات کرنی ہو تو۔

۱۴۔ ہم جنس پرستی پر صائب مؤقف

دیکھیں بھئی، ہمارا معاشرہ ہمارا مذہب ہم جنس پرستی کے خلاف ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ اور جو چیز معاشرہ قبول نہیںکرتا اس کی قبولیت حق ہو یا باطل، بتدریج ہی ممکن ہے۔ میں ہم جنس پرستی کی معاشرتی پیمانے پر حق یا باطل ہونے پر فیصلہ کرنےکا اہل نہیں کیونکہ مذہبی و معاشرتی اعتبار سے یہ ممنوع ہی سمجھی جاتی ہے، کم از کم آج کے دن تک۔ تاہم دو افراد اپنی جنسیزندگی کس طرح، کس وقت، کس کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں، میں اسے ذاتی اصول کی عینک سے دیکھتے ہوئے اسے ناپسندیدہ عملمانتے ہوئے بھی اسی ذاتی اصول کی عینک کے تحت فرد کا حق سمجھتا ہوں۔ اب یہ حق اسے معاشرے میں گانڈو کے نام سے پکارتاہے یا اسے گناہ قرار دیتا ہے، یہ معاشرے پر منحصر ہے۔ میری نظر میں البتہ میں کسی شخص کو اس بنیاد پر ملعون نہیں ٹھہراسکتا کیونکہ اسے اپنی ہی جنس کے ساتھ جنسی اختلاط پسند ہے۔ ہاں معاشرے میں اس کو جس نظر سے دیکھا جاتا ہے، اس کیعکاسی میں لکھتے ہوئے ضرور کروں گا۔ ایک بار پھر۔۔۔ میرے نزدیک ہم جنس پرستی کو بحیثیت شخصی حق ضرور ہے تاہم معاشرےمیں بھی اور ذاتی حیثیت میں بھی مجھے اس حق کا استعمال پسند نہیں۔ فرد کے لیے اسے ایک حق کی طرح دیکھنا اور بات کرنامیرے نزدیک شخصی آزادی کے لیے اہم ہے۔ شخصی آزادی کے لیے معاشرتی نارمز سے ایک سو اسی درجہ زاویے کوئی بھی شدیدتحریک چلانا میرے نزدیک کوئی دانشمندی بھی نہیں۔

۱۵۔ بحوالہ ٹوٹے

یار مجھے ٹوٹے دیکھنے ہوتے ہیں تو میں پورن ہب کھول لیتا ہوں۔ بیسٹ کلیکشن انہی کے پاس ہوتی ہے۔ اس کے نزدیک کسی سیلبرٹیکا ٹوٹا مارکیٹ میں آیا تو خدا گواہ ہے گزشتہ تین چار سال سے شاید کبھی اتاولا نہیں ہوا اور نہ ہی اس پر اتاولا ہونے کو مثبت عملمانا۔ تفریق پورن ہب اور پرویز رشید 🤮 کے ٹوٹے میں یہی ہے کہ اوّل الذکر میں کانسینٹ شامل ہے جبکہ مؤخر الذکر اگلے کیپرائیویسی کے خلاف ہے۔ لیکن برادران و خواتین، مسئلہ یہ ہے کہ میرے ارد گرد جس لیول کے ررامی موجود ہیں وہ بغیر کہے ٹوٹا بھیجدیتے ہیں۔ پھر جب کوئی قریبی بندہ لنک مانگتا ہے تو ایک آدھ کو بھیجنا پڑ ہی جاتا ہے۔ میں قبول کرتا ہوں کہ یہ کوئی درست طرزعمل نہیں تاہم یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ اس کا سدباب کیا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ ایک ڈیڑھ برس تک سیدھا انکار کرنے پر باچیزقادر ہوجائے گا اور یوں اس اصول کو بھی فار گریٹر گڈ نافذ کر دیا جائے گا۔

باچیز ایک شریف النفس انسان رہا ہے۔ ماضی میں لوگوں کا البتہ ایسا رویہ دیکھا کہ سخت لونڈا بننے کی جانب چلنا پڑا۔ اس ضمنمیں مندرہ بالا کئی اصول طبیعت پر گراں گزار کر لاگو کیے گئے تاہم کامل ذات خدا کی ہے، گر ہے بھی تو۔ ارتقاء ہے، اور ارتقاء ہیجاری ہے۔ لحد تک یہی جاری رہے گا۔ فی الوقت یہی زریں اصول اخلاقیات از طرف ایک بداخلاق کے طور پر جانے والے شخص کیجانب سے۔ مزید ریسپیز کے لیے جڑے رہیےگپ کرکے ساتھ۔

معاذ بن محمود
معاذ بن محمود
مقیم آسٹریلیا، دل ہے پاکستانی۔ کہتے ہیں کہ اپنے رسک پر پڑھا کریں مجھے۔ تو پھر؟
پڑھتے رہا کرو یارو

جیویں رب دی رضا

11 سالہ طلحہ اور 5 سالہ علی احمد کو سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ ان دونوں بھائیوں کے ساتھ تنویر، نعمان اور غفار کیا کر رہے ہیں۔...

اک نہایت ہی ڈراؤنی کہانی

وہ اک شاندار مبلغ تھا اور اس نے اپنی تمام زندگی دین کی خدمت کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ اس کے پائے کا مبلغ پوری دنیا میں کہیں...

تمسخر یا تحقیر؟

دیومالا میں بہت طاقت ہے۔ لوگوں نے اپنے اپنے خاندانوں، ذاتوں، مذاہب، فرقوں، رہنماؤں وغیرہ کے لیجنڈز بنائے ہوتے ہیں۔ اور اس لیے بنائے ہوتے ہیں کہ دوسروں کو...

فاشزم کی فاشسٹ لکیر

ڈس-کلیمر: کسی قسم کی بھی مماثلت حادثاتی ہو گی۔ شکریہ۔ ہر قسم کے فاشزم اور فاشسٹ سے انکار کیجیے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ فاشسٹ پہلے حب الوطنی کی...

25 لاکھ روپے ایڈوانس

مولانا مبشر علوی نے کربلا کے ذکر کا ایسا منظر باندھا کہ ہر کوئی رونے لگ گیا۔ مولانا نے کہا کہ ہم کربلائی ہیں اور موت کو زندگی سمجھتے...

جنسی ہراسانی کے پاپولر تصورات، اک متبادل زاویہ

میرا ماننا ہے کہ ہر قسم کی انتہا بدصورت ہوتی ہے اور انتہاؤں پر موجود لوگ بھی بدصورت ہوتے ہیں۔ یہ تجربہ ہے، مشاہدہ اور اب تیقن بھی۔ انتہا...
error: چوری مت کر۔ اپنا کانٹینٹ خود لکھ کمینے۔