دیومالا میں بہت طاقت ہے۔ لوگوں نے اپنے اپنے خاندانوں، ذاتوں، مذاہب، فرقوں، رہنماؤں وغیرہ کے لیجنڈز بنائے ہوتے ہیں۔ اور اس لیے بنائے ہوتے ہیں کہ دوسروں کو متاثر کرنے یا غلبہ پانے کے حوالے سے کوئی نہ کوئی ایسی برتری ثابت کی جائے جو اپنے کیمیا میں Unique ہو۔ اب لطف کی بات یہ ہے کہ کسی بھی حوالے سے دیومالا تخلیق کرنے والے جب یہ کام کر رہے ہوتے ہیں تو اس بات سے گویا بےخبر ہوتے ہیں کہ مقابل بھی انہی جیسے دیوانے بیٹھے ہیں جو ٹکر کی دیومالا نکال لیں گے۔ تو لہذا اگر تسبیح لال ہوتی ہے تو سبرپگڑی والے کی تصویر موٹرسائیکل کے ٹینک پر لگانے سے اس میں پٹرول ہی ختم نہیں ہوتا۔
پچھلے چند ہفتوں میں مجھے چند اک دوستوں کے وٹس-ایپی پیغامات ملے جنہوں نے بھد اڑائی گئی پوسٹس پر اپنے اپنے مدعا کی حقانیت ثابت کرنے کی کوشش کی۔ سب سے زیادہ مزہ مذہبی دوستوں کے پیغامات پر آیا۔ ان میں سے ایک کہنے لگے کہ تم ملحد ہو چکے ہو تو میں چاہتا ہوں تمھیں بچا لوں۔ میں نے اسے جواب دیا کہ میں ملحد تو نہیں ہوں اور خدا سے مجھے کوئی خوف بھی محسوس نہیں ہوتا تو تُو مجھے نہ بچا، تُو اپنے آپ کو اپنے فرقے کے مولوی سے بچا اور عصر کے بعد اس کے حجرے میں نہ جائیں۔ میری چائے کے محسن، “امام مہدی،” اس بات کے گواہ بھی ہیں۔
جاری شدہ حماقت کو رد کیا کیجیے اور اس کے دو طریقے ہیں۔ اک طریقہ تو تحقیر سے رد کر دینے کا ہے۔ مگر اس میں اک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ اس میں جذباتی طور پر Involve ہو سکتے ہیں اور آپ کے موڈ کا عمران نیازی بن جاتا ہے۔ دوسرا طریقہ اس کا تمسخر اڑانے کا ہے جس سے آپ کسی قسم کی جذباتیت رکھے بغیر کسی بھی معاملے اور اس کے Peddlers کو اک فاصلے سے دیکھتے ہوئے ان کی مشترکہ بھد اڑاتے ہیں۔ اس سے آپ کو خود بھی چس آتی ہے اور پڑھنے والے بھی ہاسے کھیڈ میں جاری شدہ حماقت سے متاثر ہوئے بغیر اس میں گزر جاتے ہیں۔
دیومالا کی بنیاد پر برتری ثابت کرنے کی کوشش کرنا بنیادی طور پر یہ دماغی خلل ہوتا ہے اور اسے ویسے ہی دیکھا کیجیے۔ ملائیت ہو یا لبرلیئت، سیاسیت ہو یا فوجیت، نسل پرستی ہو یا حب الوطنی۔۔۔ کچھ بھی ہو، تمسخر کو تحقیر پر افضل جانا کیجیے۔ آپ اگر تحقیر کرتے ہیں تو جذباتی وابستگی کی بنیاد پر آپ جاری شدہ “چوَلیت” میں سے کسی اک طرف کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تمسخر، آپ کو اس چولیت کے تمام کھلاڑیوں پر ہنسنے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔
تو اے مؤمنین الکھوچل میڈیا، تمسخرکیا کرو کیونکہ تمسخر ہی تحقیر پر افضل ہے۔
دُم: عطا الحق قاسمی سے کسی نے پوچھا کہ پنجابی لفظ “چوَل” کا کیا مطلب ہے۔ قاسمی صاحب نے جواب دیا کہ چول کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ یہ بس دیکھا جا سکتا ہے۔ پنجابی زبان کا یہ صدیوں پرانا معمہ اک انقلابی سیاسی لیڈر اور اس کے سیاسی اور محقماتی پیروکاروں نے حل کر دیا ہے؟