“خانِ جاناں۔۔۔ کوشش کیجیے گا کبھی ایسی نوبت نہ آنے پائے کہ آپ کو آگے ہو کر بھی گردن گھما کر پیچھے والے کو کہنا پڑے۔۔۔بس کر ناں گانڈو”
اس کے دماغ میں یہی بات گونجے چلی جا رہی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ چاچے کو شراب نہ ملے تو بھی چاچے سے چتیاپے وج جاتےہیں۔ اور جب چاچے کو زیادہ پینے کو مل جائے چاچا تب بھی بھنڈ مار دیا کرتا ہے۔ مگر چاچے کی یہ بات تو بالکل درست تھی۔
آج اس کا دل بہت دکھا ہوا تھا۔ آج وہ تقریباً خون کے آنسو رو رہا تھا۔ آج وہ اپنی ہی حرکات و سکنات پر ماتم کناں تھا۔
اس نے گیدڑِ وقت پر کرپشن کا الزام لگا کر اسے داخلِ زنداں کروایا، کرما نامی کتیا نے جواباً خود اس پر گھڑی چوری کے الزام ثابتکر ڈالے۔ مگر خانِ جاناں جانتا ہے کہ اسے سخت جان رہنا ہے لہذا آج بھی پیچھے مڑ کر گیدڑِ وقت کو لندن میں اپنی گونج سنا کرکہتا ہے۔۔۔ “بس کر ناں گانڈو”۔
اس نے گیدڑِ وقت کو وقت کے بونا جسم کنجر صفت مجبور زمانہ قاضی القضاء ثاقے ناسور کے ہاتھوں نااہل کروایا۔ ایک بار پھر کرمانامی کتیا نے فردِ واحد کی اس نااہلی کا بدلہ خانِ جاناں کو سینکڑوں ارکانِ اسمبلی سے نااہل کروا کر لیا۔ مگر خانِ جاناں جانتا ہےکہ اسے سخت جان رہنا ہے لہذا آج بھی پیچھے مڑ کر گیدڑِ وقت کو لندن میں اپنی گونج سنا کر کہتا ہے۔۔۔ “بس کر ناں گانڈو”۔
مگر۔۔۔
مگر آج اس کا دل ٹوٹ گیا۔
اس کے چیپ آپ سٹاف اور ہم سب کے شہباز گل سے ملتا جلتا چہرا رکھنے والے اصل شہباز گِل نے اسے نئے دیسی ٹوٹے فارورڈ کرتےہوئے غلطی سے دو آڈیو ٹوٹے بھیج ڈالے۔ بونجہ دیسی ٹوٹے دیکھتے دیکھتے جب وہ کریم فل ہونے کے عین قریب تھا، اسی وقت اسےمرشد پاک ٹونے جادو والی سرکار اور اپنے ہی کمی کمین قلفی بخاری کے درمیان دو صوتی ٹوٹے سننے پڑ گئے۔
آہ۔۔۔ کھڑے پہ ہتھوڑا اسی کا نام ہے۔
مرشد پاک جس کی محبت میں اس نے ایک اور کمی کمین شاور مانیکے کے گھر نقب لگائی، جس کی خاطر دنیا بھر میں دوست کےگھر گندی نظریں رکھنے کا الزام سہا، جس کی خاطر بغیر عدت نکاح کا کشت اٹھایا، وہی مرشد۔۔ وہی مرشد اس کے جوان کمین کی“لو۔ن۔لی۔نس” دور کرنے کا اوپائے فرما رہی تھیں۔
اس نے سفید پاؤڈر کی لمبی لکیر ناک میں کھینچی اور پاس پڑا فون اٹھایا۔
“ہیلو۔۔۔ ہاں مرشد۔۔۔ آپ سے کچھ بات پوچھنی تھی۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ کیا کیا آپ نے زلفی کے ساتھ؟”
مرشد نے سرد مہرے سے جواب دیا۔۔۔
“خانِ جاناں۔۔۔ یاد ہے جب آپ شاور مانیکے کے پیچھے کھڑے تھے تو شاور مانیکا آپ سے کیا کہہ رہا تھا؟”
خانِ جاناں نے اپنے سفوف زدہ ذہن پر زور دیا مگر کچھ یاد نہ آیا۔
“نہیں مجھے نہیں یاد”
مرشد پاک نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔۔۔
“خانِ جاناں۔۔۔ جس وقت آپ شاور مانیکے کے پیچھے کھڑے تھے، وہ ڈھیٹ بنا پلٹ کر الٹا آپ ہی کو کہہ رہا تھا۔۔۔۔ بس کر ناں گانڈو”
خانِ جاناں نے تنگ آکر سوال کیا۔۔
“تو؟ اس سے میرا کیا تعلق؟ میری کریم کیوں تباہ کرتی ہو؟”
اب مرشد پاک کا ہاسا ایک زور دار ریح کی طرح خارج ہوا اور انہوں نے ہنستے ہنستے کہا۔۔۔
“خانِ جاناں۔۔۔ آج میں آپ کے پیچھے کھڑی ہوں اور آپ مجھے ہی پلٹ کر فرما رہے ہیں کہ بس کر ناں گانڈو؟ کمال نی ہوگیا؟”
مرشد پاک نے ہنستے ہنستے فون بند کر دیا۔
اب خانِ جاناں کو مزید تپ چڑھی۔ انہوں نے ایک بار پھر فون اٹھایا۔۔۔
“ہیلو۔۔۔ ہیلو۔۔۔ قلفی بخاری۔۔۔ یہ تم نے کیا کر ڈالا؟ میں نے تمہیں اپنا دوست سمجھا، اپنا بھائی سمجھا، اپنا کتا سمجھا، اپنا کمیکمین سمجھا۔۔ اور تم نے۔۔۔ تم نے میرے ہی گھر میں۔۔ اپنے مالک کے گھر میں۔۔۔ اپنے مہاتما اپنے لیڈر اپنے مہدی کے گھر میں ہیلکڑی لگانے کی جگاڑ شروع کر دی؟”
قلفی بخاری جو پہلے ہی مرشد پاک کے ساتھ واٹس ایپ چیٹ پر نیلے ٹک کا منتظر تھا، نے سوچا آج خانِ جاناں کو سمجھا ہی دیاجائے زندگی کا اہم ترین سبق۔ اس نے گلا صاف کرتے ہوئے جواب دیا۔۔۔
“خانِ جاناں۔۔۔ وہ چاچا تیتری ہے ناں۔۔۔ وہ اکثر شراپ پی کر زندگی کا ایک گہرا سبق دیتا ہے۔ مثلاً۔۔۔ وہ کہتا ہے کہ کوشش کرو کہزندگی میں کبھی ایسی نوبت نہ آئے کہ آپ آگے ہوکر پیچھے والے کو کہہ رہے ہوں۔۔۔”
خانِ جاناں نے قلفی بخاری کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔
“بس کر ناں گانڈو”
قلفی بخاری نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔۔۔
“جی خانِ جاناں۔۔۔ یہی۔۔۔ اب پلیز آپ آگے ہو کر ہر پیچھے والے کو کہنا بند کر دیں۔۔۔۔ بس کر ناں گانڈو”
زلفی نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا۔ خانِ جاناں کی اب بس ہوچکی تھی۔ وہ سنجیدہ ہوکر سوچ رہا تھا کہ جتنا بغیرت وہ ہے کم از کمخودکشی کا تو سوچ بھی نہیں سکتا۔
بنی گالے سے چار سو اسی کلومیٹر دور، پاک پتن میں بیٹھا شاور مانیکا جو مرشد پاک اور قلفی بخاری کی لیک شدہ آڈیو کال سن کربیٹھا تھا، قہقہے کے ایک خطرے ناک دورے کے بعد بیٹھا چشمِ زدن میں خانِ جاناں کو اپنے آگے لگا دیکھ رہا تھا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہخانِ جاناں کے بال اس کے ہاتھوں میں ہے اور خانِ جاناں پسینے میں شرابور ہے اور پلٹ کر کہہ رہا ہے۔۔۔
“بس کر ناں گانڈو”