میں چونکہ پاکستان میں پیدا ہوا اور پاکستانی اسلام کا ہی وصول کنندہ ہوں تو اپنے مشاہدے اور تھوڑی مہارت کا دعویٰ بھی اپنے معاشرے کی بابت ہی کر سکتا ہوں۔ میں پاکستانی مسلمانوں کی موت اور موت کے بعد کی زندگی کے ساتھ جڑی اک دیومالائی Fascination آج تک سمجھنے سے قاصر ہوں اور اس وقت، میں عمر کے 50ویں برس میں ہوں۔
پاکستان کے 70 سے 80 فیصد لوگ جدید تقاضوں کے برعکس اک گھٹیا طرز زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور اس بات کا مشاہدہ ہر اس وقت ہوتا ہے جب جب اسلام آباد کے غبارے سے کسی بھی جانب دس یا پندرہ منٹ کی ڈرائیو کرتا ہوں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلام آباد سے کہیں دوسرے شہر یا جگہ نہیں، وقت میں واپس سفر کر رہا ہوں۔
کل یارِ غار، آرش اللہ خان کے ساتھ اک طویل واک میں یہ موضوع بھی آیا کہ پاکستانیوں کی مذہب کے ساتھ اتنی سطحی اور اتنی سخت جڑت کی کیا وجوہات ہیں کہ اخروٹ کا چھلکا، مغز سے کہیں زیادہ لذیذ سمجھ کر چباتے رہتے ہیں اور نتیجے میں نکلنے والے اپنے ہی خون کو چوس چوس کر لطف اٹھاتے رہتے ہیں؟ گفتگو طویل رہی مگر اک متفقہ خیال یہ تھا کہ ناکام ریاست، ناکام معاشرے اور معاشرت تخلیق کرتی ہے تو ناکامی سے چند لمحات کا لطف و سرور بھی بہت محسوس ہوتا ہے۔ سیاسی و معاشرتی مذہب اس معاملہ میں چند لمحات نہیں، روزانہ کئی گھنٹوں کا سرور مہیا کرتا رہتا ہے، جبکہ انسانی زندگی میں اہم معاملات میں ریاست و معاشرے کی ناکامی، اسی سرور کے پردے میں کہیں دبتی چلی جاتی ہے۔
احباب اس بات پر بھی غور نہیں کرتے کہ پاپولر مذہب نے آج تک ان کی زندگیوں اور پاکستانی سیاست میں کیا مثبت کردار ادا کیا ہے۔ ختم نبوت کے معاملہ پر تحریک لبیک کا احتجاج تو ابھی کل کی بات ہے اور 16 دسمبر آنے کو ہے تو عین اسی پاکستانی پاپولر اسلام کے نام پر قتل کردہ 144 بچوں کی روحیں آپ سب کو Haunt کر رہی ہونگی۔
ابھی کل ہی شاید چارسدہ میں پکے پشتون مسلمانوں نے اک تھانہ اس بات پر جلا دیا کہ پولیس والے دماغی طور پر اک مفلوج شخص کی جانب سے مبینہ طور پر قران جلانے والے شخص کو پکے مسلمانوں کے حوالے کرنے سے انکاری تھے۔ زندگی کے معیار کے حساب سے کبھی چارسدہ کے ترقیاتی اشارئیے دیکھیں گے تو سر کے بال نوچ لیں گے۔ مگر وہ زندگی کے مسائل ہیں تو اہمیت نہیں رکھتے، مرنے کے بعد کی زندگی کے معاملات کی مارکیٹنگ ہی ایسی ہے کہ اسی میں دلچسپی ہے۔
ابھی دال روٹی کے کام کے بعد فیس بک پر اپنی ٹائم لائن دیکھی تو تین چار پوسٹس مرنے، موت، بعد از موت، زندگی کی بےکاری و بےثباتی وغیرہ پر مبنی تھیں تو یہ خیال آیا۔ مرنے اور موت کے تمام شوقین حضرات کو ان-فرینڈ کیا۔
مجھے یہ زندگی بہت پیاری ہے۔ مرنے کے بعد کا معاملہ الصمد کے ہاتھ میں ہے تو اس سے کوئی معاملہ کر ہی لونگا۔ اک خیال یہ بھی آتا ہے کہ اربوں کھربوں کہکشاؤں کا خالق و مالک، وقت سے قدیم اک ہستی، مجھ جیسے اک بےضرر شخص کی ذاتی زندگی میں کسی کو نقصان نہ دینے والی اپروچ میں سے چند اک واقعات نکال کر مجھے جہنم میں پھینکنے سے کیا حاصل کر لے گی؟
مر تو سب جاتے ہیں۔ بقول سعدی شیرازی: جیتے تو بغداد کے کتے بھی ہیں اور وہ بھی مر جاتے ہیں۔ تم کیا کر رہے ہو؟
تو یارو، تم کیا کر رہے ہو؟