اسی لکھاری کی مزید تحاریر

پلاسٹک کی بوتل میں محفوظ بوسہ

جج صاحب کا انصاف تو پورے آرمینیا میں مشہور تھا ہی، مگر ان کی طبیعت کی ملائمت اور حلیم مزاجی بھی اک آفاقی سچائی...

جیدا بیکرز کے جادوئی کیک

قجو جٹ بگڑتے ملکی حالات پر بہت پریشان تھا۔ ملکی معیشت پگھل رہی تھی۔ سیاسی استحکام ناپید تھا۔ خزانہ خالی ہو رہا تھا اور...

کاغذ سے بنے پرندے

تارڑ صاحب پر تنقید احباب کا حق ہے، مگر وہ اردو ادب کے عظیم ناول نگار ہیں۔ حوالہ کل رات اک ڈاکیومنٹری دیکھتے ذہن...

اوئے، باجی ڈر گئی، باجی ڈر گئی

کھوچل میڈیا پر ابھی چند گھنٹے قبل جدید بلوچ دانش کے اک نمائندے لکھاری، جو ڈپریشن ڈائریا کے ماہر ہیں، کے غائب ہونے کی...

افسانچہ: مرد تیری ایسی تیسی

مونا خان پاکستان کی بہت بڑی فیمینسٹ تھی۔ اس کا خیال تھا کہ دنیا میں تمام مسائل کی بنیادی جڑ مرد ہیں اور یہ...

تم کیا کر رہے ہو؟

میں چونکہ پاکستان میں پیدا ہوا اور پاکستانی اسلام کا ہی وصول کنندہ ہوں تو اپنے مشاہدے اور تھوڑی مہارت کا دعویٰ بھی اپنے معاشرے کی بابت ہی کر سکتا ہوں۔ میں پاکستانی مسلمانوں کی موت اور موت کے بعد کی زندگی کے ساتھ جڑی اک دیومالائی Fascination آج تک سمجھنے سے قاصر ہوں اور اس وقت، میں عمر کے 50ویں برس میں ہوں۔

پاکستان کے 70 سے 80 فیصد لوگ جدید تقاضوں کے برعکس اک گھٹیا طرز زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور اس بات کا مشاہدہ ہر اس وقت ہوتا ہے جب جب اسلام آباد کے غبارے سے کسی بھی جانب دس یا پندرہ منٹ کی ڈرائیو کرتا ہوں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلام آباد سے کہیں دوسرے شہر یا جگہ نہیں، وقت میں واپس سفر کر رہا ہوں۔

کل یارِ غار، آرش اللہ خان کے ساتھ اک طویل واک میں یہ موضوع بھی آیا کہ پاکستانیوں کی مذہب کے ساتھ اتنی سطحی اور اتنی سخت جڑت کی کیا وجوہات ہیں کہ اخروٹ کا چھلکا، مغز سے کہیں زیادہ لذیذ سمجھ کر چباتے رہتے ہیں اور نتیجے میں نکلنے والے اپنے ہی خون کو چوس چوس کر لطف اٹھاتے رہتے ہیں؟ گفتگو طویل رہی مگر اک متفقہ خیال یہ تھا کہ ناکام ریاست، ناکام معاشرے اور معاشرت تخلیق کرتی ہے تو ناکامی سے چند لمحات کا لطف و سرور بھی بہت محسوس ہوتا ہے۔ سیاسی و معاشرتی مذہب اس معاملہ میں چند لمحات نہیں، روزانہ کئی گھنٹوں کا سرور مہیا کرتا رہتا ہے، جبکہ انسانی زندگی میں اہم معاملات میں ریاست و معاشرے کی ناکامی، اسی سرور کے پردے میں کہیں دبتی چلی جاتی ہے۔

احباب اس بات پر بھی غور نہیں کرتے کہ پاپولر مذہب نے آج تک ان کی زندگیوں اور پاکستانی سیاست میں کیا مثبت کردار ادا کیا ہے۔ ختم نبوت کے معاملہ پر تحریک لبیک کا احتجاج تو ابھی کل کی بات ہے اور 16 دسمبر آنے کو ہے تو عین اسی پاکستانی پاپولر اسلام کے نام پر قتل کردہ 144 بچوں کی روحیں آپ سب کو Haunt کر رہی ہونگی۔

ابھی کل ہی شاید چارسدہ میں پکے پشتون مسلمانوں نے اک تھانہ اس بات پر جلا دیا کہ پولیس والے دماغی طور پر اک مفلوج شخص کی جانب سے مبینہ طور پر قران جلانے والے شخص کو پکے مسلمانوں کے حوالے کرنے سے انکاری تھے۔ زندگی کے معیار کے حساب سے کبھی چارسدہ کے ترقیاتی اشارئیے دیکھیں گے تو سر کے بال نوچ لیں گے۔ مگر وہ زندگی کے مسائل ہیں تو اہمیت نہیں رکھتے، مرنے کے بعد کی زندگی کے معاملات کی مارکیٹنگ ہی ایسی ہے کہ اسی میں دلچسپی ہے۔

ابھی دال روٹی کے کام کے بعد فیس بک پر اپنی ٹائم لائن دیکھی تو تین چار پوسٹس مرنے، موت، بعد از موت، زندگی کی بےکاری و بےثباتی وغیرہ پر مبنی تھیں تو یہ خیال آیا۔ مرنے اور موت کے تمام شوقین حضرات کو ان-فرینڈ کیا۔

مجھے یہ زندگی بہت پیاری ہے۔ مرنے کے بعد کا معاملہ الصمد کے ہاتھ میں ہے تو اس سے کوئی معاملہ کر ہی لونگا۔ اک خیال یہ بھی آتا ہے کہ اربوں کھربوں کہکشاؤں کا خالق و مالک، وقت سے قدیم اک ہستی، مجھ جیسے اک بےضرر شخص کی ذاتی زندگی میں کسی کو نقصان نہ دینے والی اپروچ میں سے چند اک واقعات نکال کر مجھے جہنم میں پھینکنے سے کیا حاصل کر لے گی؟

مر تو سب جاتے ہیں۔ بقول سعدی شیرازی: جیتے تو بغداد کے کتے بھی ہیں اور وہ بھی مر جاتے ہیں۔ تم کیا کر رہے ہو؟

تو یارو، تم کیا کر رہے ہو؟

مبشر اکرم
مبشر اکرم
مبشر اکرم ویہلا آدمی ہے۔ وہ جب ویہلا ہونے سے بھی زیادہ ویہلا ہوتا ہے تو یہاں کچھ لکھ دیتا ہے۔
پڑھتے رہا کرو یارو

بواسیر

چوہدری بشیر کو پچھلے چند دن سے صبح اور شام کے وقت مارشل لا کو سلیوٹ کرتے ہوئے شدید تکلیف کا احساس ہو رہا تھا، مگر روایتی شرم کے...

محرر کی ڈائری سے ایک ورق

یونان کے اس فرتوت فلسفی نے کہا تھا عہدے اور مال نہیں، کردار امر کرتے ہیں۔ شب گزشتہ عارف کی مجلس میں دیر تک جرعہ جرعہ مئے دانش اور...

کاغذ سے بنے پرندے

تارڑ صاحب پر تنقید احباب کا حق ہے، مگر وہ اردو ادب کے عظیم ناول نگار ہیں۔ حوالہ کل رات اک ڈاکیومنٹری دیکھتے ذہن میں آ گیا جہاں اک...

لائیک رئیلی؟

صاحبان، اپنا بنیادی مقدمہ اور زندگی گزارنے کی بنیاد عقلیت اور دلیل کی کوشش رہتی ہے۔ میں نے حقائق سے بڑھ کر کسی اور شے کو انسانوں کا دشمن...

دلال پارک میں محبت۔ حصہ اوّل

وہ ایک حسین شام تھی۔ فضاء میں آنسو گیس کی مہک موجود نفوس کو زندگی کا احساس دلا رہی تھی۔ زندگی جو بقول منٹو ملی توکتوں والی مگر جس...

شیطان غالب نہیں آ سکتا

جمعۃ المبارک کے اس روز مفتی عزیز پر عجب سے بےچینی طاری تھی۔ مرکزی جامع مسجد سے متصل مدرسہ میں اپنے حجرے میں بیٹھا وہ بار بار دروازے کی...
error: چوری مت کر۔ اپنا کانٹینٹ خود لکھ کمینے۔