چاچے نے محلول جام میں ڈالتے ہوئے استفسار فرمایا۔۔۔
“یار وہ ginger ale پئی سی پچھلی واری۔۔ کتھے وے؟”
خانِ جاناں نے اک ادائے با نیازی کے ساتھ جواب دیا۔
“یار ٹائیگر دا موتر پے گیا سی۔۔۔ پھینک چھڈی”
اس نے محلول میں پانی ڈالا اور جام کی جانب دیکھنے لگا۔۔۔
خانِ جاناں نے چونک کر صدا لگائی۔۔۔
“او پینچود۔۔۔ مرشد دا آبِ زم زم سی”
چاچے نے گھبرا کر خانِ جاناں کی جانب دیکھا اور توجہ کسی اور جانب مبذول کرنے کی نیت سے تمہید باندھی۔۔
“برباد ہوجاتی ہیں وہ قومیں جو۔۔۔”
چاچا فقرہ مکمل نہ کر پایا تھا کہ خانِ جاناں نے اسے ٹوک دیا۔
“چاچے۔۔۔ اج نئی۔۔ کچھ نوا سنڑاں”
چاچے نے آب زمزم زدہ محلول کو بغور دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
“خانِ جاناں، اگر نوکری کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں؟”
“پونک”
خانِ جاناں نے جواب دیا”
چاچے نے چرس جلانے کے بعد اسے ہاتھ پر کوٹتے ہوئے جواب دیا۔۔۔
“اے خانِ جاناں۔۔۔ کوشش کرو کے کبھی زندگی میں ایسا موقع نہ آئے۔۔۔ کہ آگے ہوکر بھی پیچھے والے کو کہنا پڑے۔۔۔ بس کر ناںگانڈو”
خانِ جاناں منجھلی انگل کا پہلے سے کترا ہوا ناخن کترتے ہوئے گہری سوچ میں پڑ گئے۔ کافی دیر تک کمرے میں خاموشی چھائی رہییہاں تک کہ پکے سرگٹ کا آخری کش آن پہنچا۔ خانِ جاناں نے چاچے سے سرگٹ چھین کر ایک لمبا کش مارا اور بولا۔۔۔۔
“چاچے۔۔۔ یہ شبازا حاکم اور میں محکوم؟”
چاچے نے اس بار آب زمزم میں ثقیل سا استغفار پڑھتے ہوئے محلول ڈالا اور نحیف سی آواز میں بولا۔۔۔
“یہ سب حاجی کا کیا دھرا ہے”
خانِ جاناں نے اس بار پٹیالہ نیٹ پیگ بنایا اور غٹ غٹ کر کے پی گیا۔ قریب بیٹھا “ٹائیگر” ہلکی سی “چیاؤں” کرتا رہ گیا۔
“لیکن فوج کا حق نہیں بنتا کہ سیاست میں انگل کرتے شبازے کو حکومت دے” خانِ جاناں نے ایک انقلابی رہنما کی طرح تقریری لہجےمیں کہا۔
چاچے نے اثبات میں سر ہلایا، اور ایک نئے ولولے کے ساتھ پکا سرگٹ بھرتے ہوئے یاد دہانی کروائی۔۔
“حضور، یاد رہے، آپ کو بھی حاجی صاحب ہی لائے تھے”
خانِ جاناں جس زور کے ساتھ انقلابی ہوئے تھے، اسی طرح واپس بیٹھ گئے۔۔
“بات تو ٹھیک ہے۔۔۔ پر چاچے۔۔۔ کیا میں احتجاج بھی نہ کروں؟”
چاچا جو اب رقیق مادے کو ماچس کی تیلی سے تاؤ دکھاتے ہوئے انگلیوں کے درمیان گھما رہا تھا، اسی انہماک کے ساتھ بولا۔۔
“احتجاج۔۔۔؟ احتجاج تو آپ کا پیدائشی حق ہے خانِ جاناں۔۔۔ رج کے احتجاج کریں”
خانِ جاناں نے بچوں کی طرح مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
“چاچے۔۔ کوئی نیا اور انوکھا نعرہ بتا جو میرے کردار کی طرح سچا ہو”
چاچا جو اب چرس گرم کرنے کے بعد اسے کیپسٹن کے تمباکو سے مخلوط کرنے کے مرحلے میں تھا، نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خانکی طرف دیکھا۔۔
“خانِ جاناں۔۔۔ ایک نعرہ ہے ایسا جو آپ کے جذبات اور معاملات کی درست احتجاجی عکاسی کرتا ہے”
خانِ جاناں کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے اٹھ کر فریج سے ginger ale کا نیا ٹن اٹھایا اور چاچے کے لیے نیا پیگ بناتے ہوئے اسمیں مکسّر انڈیلتے اس سے کہا۔
“بتا چاچے بتا۔۔۔ چس آنی چاہیے بس”
چاچا اب تک سرگٹ بنا کر پہلا کش لے چکا تھا۔ اس نے خانِ جاناں کا محبت سے بنایا ہوا پیگ اٹھایا، اور ایک ہی سانس میں حلق کےحوالے کرتا ہوا خماری سے بھرپور بیہودہ آواز میں کہا۔۔۔
“آپ شبازے سے وہی کہہ سکتے ہیں جو آگے والا پیچھے والے سے کہتا ہے۔۔۔ بس کر ناں گانڈو”