ہوم افسانچے جیدا بیکرز کے جادوئی کیک

جیدا بیکرز کے جادوئی کیک

قجو جٹ بگڑتے ملکی حالات پر بہت پریشان تھا۔ ملکی معیشت پگھل رہی تھی۔ سیاسی استحکام ناپید تھا۔ خزانہ خالی ہو رہا تھا اور پھر اس سے اپنے قریبی دوستوں کے لیے چٹے آٹے کی سپلائی میں کمی نہ دیکھی جاتی تھی۔

اس کا دل بہت نرم جو تھا۔

ہر طرف تاریکی کا سماں تھا۔

شام کو ملگجے اندھیرے میں بیٹھے ہوئے اس نے اپنے ملازم حیضے کو آواز دی۔ حیضے کے آنے پر قجو نے کہا کہ یار میں اگر ایل ڈی سی ہوتا تو پاکستان کے حالات اتنے خراب نہ ہونے دیتا۔ حیضے نے ہاں میں ہاں ملائی اور کہا کہ سرکار، آپ جب تک ایل ڈی سی تھے، تب تک پاکستان میں ہرطرف سکون کی لہریں بہریں تھیں۔ اب دیکھیں، وہ برکتیں ہی نہیں رہیں۔

یہ سن کر قجو کی چھاتی اور پیٹ خوشی کے مارے پھول گئے۔ مگر اگلے ہی لمحے اس کے دل پر اک چھری چلی جب اسے یہ احساس ہوا کہ اس کے پاس اب ایل ڈی سی والی طاقت نہیں تھی کہ وہ جو چاہتا کرتا۔

یہ احساس ہونے پر اس نے حیضے کی طرف محبت سے آنکھ اٹھائی اور کہا: اچھا فیر پئن نوں یہہ ایس سارے دی۔ میرا کیہہ لینا دینا ولا؟ جا، تے جا کے جیدے بیکری توں کیک لے کے آ۔ چا بنا تے نال فیر کیک لیا۔ میں چا چ کیک ڈوب کے کھانا۔

حیضے نے یہ سنا تو محبت سے مسکرا کر سر خم کیا اور نشیلی چال چلتا ہوا گھر سے باہر جیدا بیکرز کی جانب روانہ ہو گیا۔

پاکستان کے تمام مسائل حل ہو چکے تھے اور فضا میں جیدا بیکرز کی جانب سے “حق قجو بے شک قجو” کی آوازیں دھمک رہی تھیں۔

error: چوری مت کر۔ اپنا کانٹینٹ خود لکھ کمینے۔
Exit mobile version