ہوم افسانچے دلال پارک میں محبت۔ حصہ اوّل

دلال پارک میں محبت۔ حصہ اوّل

وہ ایک حسین شام تھی۔ فضاء میں آنسو گیس کی مہک موجود نفوس کو زندگی کا احساس دلا رہی تھی۔ زندگی جو بقول منٹو ملی توکتوں والی مگر جس کا حساب انسانوں والا دینا پڑے گا، وہی زندگی۔ انہیں مگر کتوں والی زندگی بھی قبول نہ تھی۔ وہاں موجود انسان کچھ کرنا چاہتے تھے۔ وہاں موجود انسان کتوں سے نیچے جا کر زندگی دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ سب اپنی واحد محبت کی محبتمیں فنا ہوجانا چاہتے تھے۔

وہ دلال پارک میں امر ہوجانا چاہتے تھے۔۔۔ جبکہ دلال پارک ان میں امر ہونے کی تیاری پکڑ رہا تھا۔۔۔

فزندینہ گجر، شہر کے مضافات میں بسے گلستانِ بوستان ٹاؤن کی مکین تھی۔ گلستانِ بوستان بھی کیا ہی دلچسپ علاقہ تھا۔ پچھلا حکمران اسے ٹاؤن کے نام پر ایک ماڈل بنانا چاہتا تھا تاہم یہاں کے مکین متاثرین ماڈل ٹاؤن کی اعلی مثال کے موجود ہوتے ماڈل ٹاؤن سے کوئی خاص متاثر نہیں تھے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہوتا ہے، گلستانِ بوستان ٹاؤن میں ہر جانب گل، بوٹے، پھول، پتیاں، کیاریاں، پنیریاں، پیڑ، شجر، درخت، رنگ برنگ پیڑ ہوتے ہوا کرتے ہوں گے۔ فزندینہ گجر کو بھی گاؤں سے شہر نقل مکانی کے وقت ایسا ہی تاثر ملا تھا۔ وہ البتہ گلستان بوستان ٹاؤن میں قدم رنجہ ہونے سے ساعت پہلے تک اس بات سے ناواقف ہی رہی کہ ان کی نقل مکانی کی وجہ گلستانِ بوستان اور فزندینہ گجر کے درمیان واحد مشترکہ خاصیت بس ایک تھی۔

اور وہ مشترکہ خاصیت تھی ان دونوں کاگجرہونا۔

گلستان بوستان ٹاؤن میں چار سو مجاں ہی مجاں تھیں۔ ہر جانب دودھ، گوبر، بھینسوں اور انسانوں کے پسینوں سے رل مل کر ایک الگ ہی مہک موجود رہتی۔ یہ مہک اصحابِ مجان کے نزدیک آکسیجن کا درجہ رکھتی۔ شہر بھر میں گلستانِ بوستان اور دودھ کارشتہ اتنا مشہور تھا کہ گلستانِ بوستان کا اصل نام کوئی نہ جانتا تھا۔ شہر بھر میں اسے “گلستانِ پستانکے نام سے پکارا جاتا تھا۔بھینس کے پاس ویسے بھی انسان کی نسبت ضربے دو پستان ہوا کرتے ہیں۔ یعنی اگر گلستانِ پستان ٹاؤن میں دو ہزار بھینسیں تھیںتو یقیناً آٹھ ہزار پستان تو طے تھے۔ ایسے میں گلستانِ پستان ٹاؤن نام رکھا جانا کوئی ایسا غلط بھی نہ تھا۔

فزندینہ گجر کی زندگی میں چار عناصر لازمی جزو کا درجہ رکھتے تھے۔ یہ چار عناصر دودھ، مج، پانی اور گجر تھے۔ چاروں اور گجر ہی گجر پانی میں بھینسوں کا دودھ ملاتے زندگی کا کاروبار چلاتے ہی جاتے۔ فزندینہ گجر بچپن ہی سے بھینسوں کے عشق میں مبتلا تھی۔ اس کی جوانی بھی اسی دائرے کے آس پاس گھومتی رہی۔ لڑکپن ہی سے اس کے خواب میں بھینس پر سوار بھینسہ آنا شروع ہوچکا تھا۔ وہ دیکھتی کہ ایک فربہ گجر جو اس وقت دور کہیں مجبوراً وسیب کے کسی دور پار علاقے میں بسا ہوا ہے، بھینس پر سواربھینس کی سیاہ چمکیلی کھال پر ہاتھ پھیرتا اس کی پسلیوں کے قریب پیر مارتا ہائی فریم ریٹ اور سلو موشن افیکٹ کے ساتھ چلتا چلا آرہا ہے۔ اسے بھینس کی چمکیلی کھال جیسے اپنی کھال لگتی۔ اسے محسوس ہوتا کہ فربہ وسیب میں بسا گجر جیسے اس کی کھال (جو کھردری نہ ہوتی تو جلد کہلانے پر حق بجانب ہوتی) پر ہاتھ پھر رہا ہو۔ اسے فربہ گجر کے پیر اپنی پسلیوں کے پاس دھپ دھپ کرتے محسوس ہوتے۔ وہ بہت کوشش کرتی کہ فربہ گجر کا چہرا دیکھ پائے مگر وسیب کی دھوپ اور سورج اس کے چہرے کو ہمیشہ ان دیکھا سا کر دیتے۔ اسے بس دور سے عام گجری مہک کے ساتھ ساتھ ایک الگ مہک بھی محسوس ہوتی۔

وہ جانتی تھی کہ فربہ گجر کو ایک دن اسی مہک سے پہچانے گی۔

(جاری ہے)

error: چوری مت کر۔ اپنا کانٹینٹ خود لکھ کمینے۔
Exit mobile version