ہوم سماج کیا آپ نے بچہ اس لیے پیدا کیا تھا؟

کیا آپ نے بچہ اس لیے پیدا کیا تھا؟

بہت سادہ سا اصول ہے، اگر بچہ پیدا کرنے کے بعد یہ اصول مغز میں ٹھونس لیا جائے۔۔۔

بچہ آپ کی if-else logic پر پورا نہیں اتر سکتا کیونکہ اس کا دماغ ابھی ڈیویلپمنٹ فیز میں ہوتا ہے۔ یہ ایک سائینسی حقیقت ہے۔شک ہو تو اپنی ریسرچ خود کر لیں۔

اب اوّل تو کسی بھی انسان کے ساتھ بھی امتیازی سلوک ایک گھٹیا فعل ہے۔ بچے کے ساتھ تو یہ گھٹیا پنے سے بڑھ کر غیر انسانی حرکت ہوئی۔ بدقسمتی سے ہمارے رویے اس حد تک عصبیت اور امتیازی سلوک میں گندھے ہوئے ہیں کہ اللہ کے کرم سے ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا ہم کب کس کے ساتھ کس قسم کے امتیازی سلوک کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

دوم بچے کو کوئی بھی تاکید کر کے یہ امید رکھنا کہ وہ آپ کی سمجھ کو مکمل طور پر pick کر کے اپنے طرز عمل میں replicate کرے گا، یہ ہماری عوام کی عمومی کم عقلی ہے۔ بچہ کسی بھی انسٹرکشن کی سنجیدگی اس طرح سے نہیں سمجھ سکتا جو آپ کے ذہن میں ہوتی ہے۔

تیسری بات، بچہ اگر کسی قسم کی خبر دیتا ہے تو بطور والدین آپ کا فرض ہے کہ اسے سچ مان کر اپنی حکمت عملی وضع کریں۔ بچہ سر میں درد کی شکایت کر رہا ہے، آپ کو ماننا پڑے گا کہ یہ سچ ہے اور اس کے حساب سے ردعمل دینا ہوگا۔

چوتھی اور اہم بات، آپ نے کبھی سوچا کہ مباشرت کے درمیان خاندانی منصوبہ بندی پر عمل نہ کرنے یا بہ الفاظ دیگر بچے پیدا کرنےکی آپ کے نزدیک وجہ کیا ہے؟ کیا یہ معاشرتی دباؤ ہے؟ کیا یہ نسل انسانی کی بقاء ہے؟ کیا یہ آپ کی بچوں کے لیے پسندیدگی ہے؟ کیا یہ ایک فیملی سسٹم کی تکمیل ہے؟ کیوں بچہ پیدا کر رہے ہو بھائی؟ اور پھر کبھی یہ سوچا کہ آپ کی اس خواہش کے پیچھےمحرکات جو بھی ہوں، اس کے نتیجے میں جب ایک جیتا جاگتا انسان دنیا میں آجائے گا تو اس کی ذمہ داری اس کی کفالت آپ کے سر ہے؟ آپ سوچتے ہوں گے اولاد کے ساتھ والدین کے حقوق و فرائض کا معاملہ ہوتا ہے۔ جی نہیں۔ اولاد جب تک خود کفالت کی دنیا میں قدم نہیں رکھ لیتی ان کے صرف اور صرف حقوق ہیں۔ فرائض جنہیں آپ اولاد کے فرائض سمجھتے ہیں وہ فقط آپ کے ذہن میں ہیں۔ اولاد جب تک ۱۸ برس یا age of consent کو نہیں پہنچ جاتی، اپنے مبینہ فرائض کو اس سنجیدگی سے سمجھ ہی نہیں سکتی جس سنجیدگی سے آپ انہیں فرض سمجھ سکتے ہیں۔ پھر جب حقوق و فرائض کی بنیاد کے لیے common grounds ہی موجودنہیں تو کون سا فرض کیسا فرض؟ نطفہ پارٹنر کی جانب اچھالنے سے پہلے یہ سب سوچا کبھی؟

گیارہ سال کی بچی خود کشی کر لیتی ہے۔ گویا جسے سر درد سے تکلیف ہوتی ہو وہ اپنا پورا جسم ہی چند لمبے درد کی آغوش میں دے دینے کو تیار ہوجاتی ہے۔ یہ سب بس ایسے ہی چٹکی بجا کر تو نہیں ہوا ہوگا؟ اس میں والدین کی شدید ترین نااہلی، بے حسی اور لاپرواہی شامل ہوگی۔

بھائی اگر بچوں کو کسی سیاسی جماعت کے جھنڈے پکڑانے ہیں، کسی مذہبی جلسے میں لے جانا ہے، سر درد پر ڈانٹنا ہے، کسی پیر فقیر کو دان کرنا ہے۔۔۔ تو ایک بار سوچ تو لو کہ بغیر کونڈم مباشرت آخر کی کیوں تھی؟ اور اگر کر ہی لی تھی تو گولیاں کھلا دیتے بھائی۔ ابارشن کروا دیتے کم از کم بچے کے احساسات کا قتل تو نہ ہوتا۔

اگر یہ خط اور اس سے متعلقہ خبر درست ہے تو ان والدین کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہونا بنتا ہے۔ یہ خط بذات خود فرد جرم ہے۔ یہ والدین قاتل ہیں اور یہ بیٹی مقتول۔ کیا آپ نے بچہ اس لیے پیدا کیا تھا؟

error: چوری مت کر۔ اپنا کانٹینٹ خود لکھ کمینے۔
Exit mobile version