ہوم زندگی میرا گھر

میرا گھر

دنیا کو بیشک تغیر و تبدیلی سے رغبت ہو، ہمیں تو یکسانیت سے لگاؤ ہے۔ پس اسی لیے آج تیسرے سال کے لیے اسی گھر کا کانٹریکٹشروع ہوچکا ہے۔ اس دوران پیش آنے والے دلچسپ واقعات اور گھر کی قابل ذکر خصوصیات ذیل ہیں۔

الحمد للّٰہ ہر گھر کی طرح یہاں بھی شاور میں ٹھنڈے اور گرم پانی کا بیلنس کرنا ایک معمہ ہے۔ انسان کی چاند پر مٹر گشتی ایک کارنامہ ہے۔ اس کے کئی برسوں بعد بھی فلیٹ ارتھرز کا مکمل ڈھٹائی کے ساتھ وجود رکھنا بنی نوع انسان کا ایک اور کارنامہ۔ تیسرا کارنامہ اسی دن برپا ہوگا جس دن پہلے تین سیکنڈ میں دوران شاور ٹھنڈا گرم پانی سیٹ ہوجائے۔

ہمارے گھر میں انگور کی بیلیں موجود ہیں۔ جب ہم آئے تو اس قدر خوبصورت طریقے سے دھاتی ڈوروں پر سیٹ تھیں کہ وائنری کا گمان ہوتا تھا۔ پہلی بار گھر میں داخل ہوئے تو انگور غالباً چیونٹیوں کی نظر ہوچکے تھے۔ دوسرے سال مالک مکان نے ہمیں شاخیں کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے ڈیمو بھی کر کے دکھایا۔ ٹھیک ٹھاک انگور آیا۔ پچھلے سال کا انگور دیکھ کر ہمیں لگا کہ یار ایویں شاخیں کاٹ گیا۔ اس سال نہیں کاٹ کر دیکھتے۔ اس بار انگور آنا شروع ہوا تو شروع میں اس قدر پھل دکھائی دیا کہ لگا استاد دوکان لگانی پڑے گی یا بانٹنے پڑیں گے۔ لیکن پھل اتنا زیادہ تھا کہ پک ہی نہ پایا۔ بغیر پکے سوکھ گیا۔ تب پتہ چلا کہ زیر ناف بال کاٹنے کا حکم کیوں ہے۔ پھل کہیں سوکھ نہ جائے۔

گھر میں داخل ہوئے تو یہاں چار عدد گولڈ فش ماڈل مچھلیاں بھی موجود تھیں۔ میں بڑی چاہ سے دیکھا کرتا تھا کہ کب بڑی ہوں اورمیں کنڈا لگا کر پکڑوں، تل کر کھاؤں۔ میکائیل جب تک ارلی لرننگ سینٹر نہیں جاتا تھا، اس کے ساتھ آئے روز صبح یا شام میںمچھلیوں کو دانہ ڈالنے آیا کرتا۔ اچھی سرگرمی تھی۔ پھر کسی جرلن باجوہ مارکہ پوسم کو پتہ چل گیا کہ یہاں تو مچھلیاں پالی جارہی ہیں۔ سالے نے ایک بار فش پونڈ پر شب خون مارا۔ میں تین اور لے آیا۔ مگر نہ جی۔ جیسے فوج کو حکومت ٹاپنے کا چسکا چڑھجایا کرتا ہے ویسے ہی، پوسم خبیث نے بھی جگہ تاک لی تھی۔ دوسری بار بھی مچھلیاں چھک گیا۔ پھر میں نے سوچا کہ میںمچھلیاں پال رہا ہوں یا پوسم۔ جواب میری مرضی کا نہیں تھا لہذا مچھلیوں کو بھی طلاق دے ڈالی۔

میری شادی ۲۳ برس کی عمر میں ہوئی تھی۔ بہت مست وقت تھا۔ یاد یوں آیا کہ ہمارے کچن کے سنک میں موجود سنک کا نلکا ہر بارسرپرائز دیتا ہے۔ سلمان بھائی جیسا صابر اور ٹھہرے مزاج کا بندہ بھی ساری رات موسیقی رگڑنے کے بعد صبح نلکا کھولتا ہے توپانی ایک شدید تلاطم کے ساتھ پریشر سے سب کچھ گیلا کر دیتا ہے۔ تو میں کہہ رہا تھا میری شادی ۲۳ برس کی عمر میں ہوئیتھی۔ بہت مست وقت تھا۔

ہمارے اس گھر میں evaporator cooling system نصب ہے۔ سادہ الفاظ میں، مذکورہ بالا کولنگ سسٹم پانی کے ذریعے گھرٹھنڈا کرتا ہے جبکہ اے سی اس کی نسبت refrigerant جسے دیسی زبان میںگیسکہتے ہیں، کے ذریعے گھر ٹھنڈا کرتا ہے۔ہمارے گھر میں دو افراد کو انٹارکٹکا سے عشق ہے۔ ان دو نے کبھی اس بات کا اعتراف نہیں کیا، البتہ جس حساب سے اے سی کوسیٹ کرتے ہیں گمان یہی ہوتا ہے۔ باقی دو کو میانوالی بھی تنگ نہیں کرتا۔ ان میں سے ایک بدنصیب میں خود ہوں۔ اعتراف تو میں نےبھی نہیں کیا تاہم میانوالی نے ملائی کی پیداوار بڑھانے میں جو کردار ادا کیا ہے، میں سمجھتا ہوں ہم میں سے ہر شخص کومیانوالی پسند ہونا چاہئیے۔ بہرحال گھر میں ہمیشہ ایک جنگ جاری رہتی ہے۔ کہتے ہیں اختلاف رائے ہی زندگی کا حسن ہے۔ میں کہتاہوں وڑ گیا ایسا جما دینے والا حسن۔

پچھواڑے۔۔ میرا مطلب ہے گھر کے پچھواڑے میں قابل کاشت زمین کے چند ٹکڑے موجود ہیں۔ ان پر ٹھیک ٹھاک محنت کی۔ ٹماٹر، مٹر،گوبھی، پیاز وغیرہ اگانے کے لیے بیچ ڈالے۔ اس سے پہلے کہ کچھ اگتا، شدید والی بارش کا موسم شروع ہوگیا۔ اس ناکام تجربے سےمیں نے یہ سبق سیکھا کہ غلط جگہ بیج ڈالنے سے کہیں زیادہ غلط وقت پر بیج ڈالنے کی مایوسی ہوتی ہے۔ میرا گمان ہے کہ یہ عالمیحقیقت ہے تاہم آپ چاہیں تو اپنی سی کوشش کر کے دیکھ لیں۔

ویسے تو پورے آسٹریلیا میں مگر بالخصوص میرے گھر میں مکڑیاں میرے دماغ میں آنے والے گندے خیالات سے بھی زیادہ تعداد میںموجود ہیں۔ ان میں سے اکثر مکڑیاں ایسی ہیں جو نظر بھی نہیں آتیں۔ نظر تو خیر میرے ذہن میں موجود گندے خیالات بھی نہیں آتےمگر مکڑیاں کم از کم جالے ضرور بنا جاتی ہیں۔ میرے کمرے میں ایک عدد پودا رکھا ہے۔ اس پر بھی مکڑی سیٹھ کی جائداد موجودہے۔ گاڑی روزانہ کم سے کم بھی ستر کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے۔ اس کے سائیڈ مررز پر بھی مکڑی کے جالے موجودہیں۔ سب چھوڑیں، گزشتہ روز صبح رفع حاجت کی نیت سے دورہ میاہ میں قدم رنجہ ہوا۔ سامنے مکڑے کی کوئی ایسی قسم موجودتھی جسے دیکھ کر پہلے تو محسوس ہوا دو مکڑیاں جنسی سرگرمی میں مشغول ہیں۔ غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ نہیں، یہ مکڑے بیچارے کو جگہ نہیں مل رہی لہذا ٹانگیں فولڈ کر کے چل رہا ہے۔ پہلے پہل تو رفع حاجت وہیں رفع دفع ہونے لگی۔ پھر سوچا بچوں نےبھی جانا ہوگا، لہذا چپل اٹھا کر پورا مکڑا ہی فولڈ کر دیا۔

عقبی برآمدے میں ایک عدد مالٹے کا درخت ہے۔ ساتھ ہی انجیر کا درخت بھی ہے۔ یہ دونوں درخت مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی رشتہداروں کی یاد دلایا کرتے ہیں۔ انجیر کا درخت خود تو پھل دیتا نہیں، قریب موجود قابل کاشت رقبے میں بھی اپنی جڑیں پہنچا کر وہاںکے کام میں بھی انگشت انگیزی کا مرتکب رہتا ہے۔ دوسری جانب مالٹے کا درخت ایک روز آندھی سے گر گیا تھا۔ بہت مشکل سے واپس کھڑا کر کے سہارا دیا، کھاد ڈالی کہ بچ جائے۔ بچ تو گیا، پھل بھی خوب دیتا ہے مگر اللہ کے فضل و کرم سے شدھ کھٹے۔انجیر کی تو باقاعدہ جڑیں میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر کاٹ چکا ہوں۔ پھر بڑھ گیا۔ مجھے شک ہے آجو باجو کے دو گھروں تلے بھی اس کانیٹورک موجود ہے۔ خیر۔۔۔ یہ دو درخت کبھی رشتے داروں کی یاد نہیں بھولنے دیتے۔

میرا اور گھر کا رشتہ یوں بھی نسبتا زیادہ مضبوط ہے کہ میں زیادہ تر اسی کے ساتھ رہتا ہوں۔ بچے سکول میں، بیگم جاب پر، ورک فرام ہوم کے دوران جب میرے ساتھ کوئی نہیں ہوتا تو یہی گھر موجود ہوتا ہے۔ تب میری ملاقات اس گھر کی ایک پرسنالٹی ایک شخصیت سے ہوتی ہے۔ ہمارا مکالمہ تو نہیں ہوتا مگر مکالمہ تو میرا اپنے بہترین دوستوں سے بھی کئی کئی ماہ نہیں ہوتا۔ مجھے لگتا ہے گھر یا کوئی بھیعمارت آپ سے مختلف طریقوں سے باتیں کرتے ہیں۔ کبھی ٹھنڈے گرم پانی سے کھیل کر مجھ سے اٹکھیلیاں کرتا ہے، تو کبھی انگور کا پھل خراب کر کے ناراضگی کا اظہار۔ کبھی مچھلیوں کو پوسم کا شکار کر کے عدم تحفظ کا احساس میرے سامنے لاتا ہے تو کبھی کچن کے نلکے کی تیز دھار کے ذریعے مجھ پر ہنستا ہے۔ کبھی کولنگ سسٹم کے ذریعے اپنی بزرگی و برتری کی سرگوشی کرتا ہے تو کبھی میری کھیتی باڑی کو بارش سے نہ بچا کر اپنی بیچارگی کا اظہار کرتا ہے۔ کبھی مکڑیوں کی زبان میں شرارتیں کرتا ہے اور کبھی انجیر اور مالٹے کے درخت کے ذریعے مجھے ان اپنوں کو یاد کرنے پر مجبور کرتا ہے جو اگر پرائے ہو سکتے تو میں انہیں پرایا کرکے ہی چھوڑتا۔

میرا گھر۔۔۔ مجھ سے ہم کلام رہتا ہے، اور میں اس سے۔ اور ہم دونوں ہی ایک دوسرے سے کچھ نہ کچھ سیکھتے رہتے ہیں۔

error: چوری مت کر۔ اپنا کانٹینٹ خود لکھ کمینے۔
Exit mobile version